میرے قلم سے ۔۔۔۔۔
اپنے گزرے ماہ و سال کا میں انداذہ کرنے بیٹھی
سود و زیاں کی ساری باتیں اک کاغذ پر لکھنے بیٹھی
کیا کھویا کیا پایا اب تک، جب یہ کھوج لگایا میں نے
کچھ پچھتاوا اور ندامت اور کچھ غم سنبھالے بیٹھی
کتنے پیارے ملے ہیں اب تک اور کتنوں کو کھویا ہے
جنکی یاد کو دل سے اپنے اب تک ہوں میں لگائے بیٹھی
کچھ لمحے تاریک تھے اور کچھ صبح کی مانند روشن سے
دن اور رات کی ساری رمزیں اپنے ساتھ نبھائے بیٹھی
جیون کی اس راہ گزر کا ہر اک باب ضروری تھا
جلد گزر جائے گا سب کچھ بس یہ آس لگائے بیٹھی
درد کا مرہم کرنے کو جب خوشیاں گننی چاہیں تو
قوس ِقزاح کے رنگوں سا میں ایک جہان سجائے بیٹھی
جلتے بجھتے سارے دیپ جب قرطاس پہ بکھرے تو
اپنے دل کی ساری شمعیں بھی میں آج جلائے بیٹھی
دل کی تشنہ لبی کو میں نے جب سیراب کیا یادوں سے
من کے اس آنگن میں میں پھر اپنا آپ بھلائے بیٹھی