November 24, 2016

اُ داسی

ﺍُﺩﺍﺳﯽ ﺟﺐ ﺭﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﻥ ﮐﯽ ﻣﺎﻧﻨﺪ
ﺍُﺗﺮﺗﯽ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ

ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺟﺪﺍﺋﯽ ﭘﺮ ﺷﺠﺮ ﺟﺐ ﺑﯿﻦ
ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﮩﺖ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ

November 14, 2016

میرے قلم سے نظم

اس ذہن کی پرواز  میں وسعت ہی نہیں ہے
اک محورِ  افکار ہے جو دل کا مکیں ہے
 موضوع تو بہت  ہیں غمِ  دل کے لئیے لیکن
راس آئے جو مجھ کو غمِ جاناں ہی نہیں ہے
فکریں میری منسوب ہیں اس دشمنِ  جاں سے
جو دل کے نہاں خانوں میں پھر جلوہ نشیں ہے
اس کو کبھی سوچوں کبھی مانگوں میں دعا میں
ہاتھوں کی لکیروں میں جو نقشاں ہی نہیں ہے
کیا سوچ کے اس روگ سے دل میں نے لگایا
شاید جو کسی حال میں بھی اپنا نہیں ہے
خوش فہم سی اک سوچ ہے، مل جائے گا شاید
سنگدل جو میرے حال سے واقف ہی نہیں ہے

November 8, 2016

After a while.... میرے قلم سے

تمہیں معلوم ہے کہ میں
اِسے ملنے اُسے ملنے سے
کیوں بے زار رہتی ہوں؟؟
وجہ کیا ہے ؟
کہ میں سب سے پرے
سب سے الگ اپنی ہی دنیا میں مگن
خاموشیوں کے سنگ
کبھی  یادوں کے جھرمٹ میں
کبھی سوچوں کے آنگن میں
مچلتی خواہشوں کے شور میں
کانوں کو بند کر کے
کبھی ہنستی کبھی روتی
بہت ہی مطمئن ہوں میں
بڑی آسودگی سی ہے
!....میرے چاروں طرف کیونکہ
میرے خوابوں کی دنیا میں
کوئی ایسا نہیں ہے جو
کسی کے دل کو اپنے
 بے رحم لفظوں سے بھر جائے
کسی کے قیمتی سپنے
جو اسکو زندگی کے
خوش نما ہونے کی
 کچھ امید دیتے ہوں
انہی سپنوں کو اک دم
تلخیوں کی آگہی دے کر
چمکتی آنکھ کے سب جگنوؤں کو ہی بجھا جائے
میری اس پر سکوں دنیا میں کوئی بھی
کسی کے خون کا پیاسا
کسی کی جان کا دشمن نہیں ہے کہ
کسی کی سانس کی ڈوری کو
 اپنے ہاتھ میں لے کر
جدھر چاہے گھما ڈالے
یہاں پر کوئی بھی ایسا نہیں
جو اپنے مطلب کو بھلا کر
دوسرے کے درد کو سمجھے 

میری سوچوں کی دنیا میں
 نہیں ہے بےرحم کوئی
نہیں ہے کوئی بھی ایسا
جو اپنی زیست کی خوشیاں
کسی کے خون سے سینچے
کسی کی راہ میں تاریکیاں بھر کر
اجالے اپنی دنیا کے امر کرنے کا خواہاں ہو

 نہ جانے کیسے بدلیں گے
یہ سب حالات اور یہ لوگ
نہ جانے کتنی صدیاں بیت جائیں گی
میرے جیسوں کو اپنے خول سے آزاد ہونے میں
!....خدا جانے

November 7, 2016

اُداسی ٹھر جاتی ہے....

کبھی پت جھڑ کے موسم میں
بے آواز قدموں سے
شجر سے پتیاں اتریں
میرے دل کے دریچوں پر
اداسی ٹھر جاتی ہے

کبھی بارش کے موسم میں
یونہی بوندوں کی رم جھم میں
کوئی بے نام سا جذبہ
خاموشی سے ابھر آئے
میرے دل کے دریچموں پر
اداسی ٹھر جاتی ہے

خوشی مہمان بن کر جب
کبھی بھولے سے یوں آئے
کسی چھوٹی کہانی کا
کوئی کردار ہو جیسے
خوشی تو لوٹ جاتی ہے
لیکن!!!!!!
میرے دل کے دریچوں پر
اداسی ٹھر جاتی ہے۔۔۔۔۔

November 1, 2016

قطعہ

تلخی میرے لہجے کی تو لفظوں سے عیاں تھی
حیرت میری آنکھوں کی زمانے نے چُھپا لی
عزت میرے لفظوں سے ہی درکار تھی اسکو
نظروں کی جو بابت ہے, فقط ایک کہانی