July 31, 2019

دم بخود ۔۔۔

دیکھئے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں
دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود

اتنا سنّاٹا کہ جیسے اوّلیں شامِ فراق
دم بخود ہے آسماں بھی اور ہَوا بھی دم بخود

یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدّت کہ جب
رہ گئی تھی دفعتاً تیری حیا بھی دم بخود

ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے نہیں نسبت مجھے
دم بخود عمرِ رواں سیلِ فنا بھی دم بخود

جب کھلے میری حقیقت تم وہ منظر دیکھنا
دم بخود نا آشنا بھی آشنا بھی دم بخود

July 5, 2019

کچھ کر نہیں سکتا۔۔۔

ارادہ روز کرتا ہوں
مگر کچهہ کر نہیں سکتا
میں پیشہ ور فریبی ہوں
محبت کر نہیں سکتا
برے ہو یا کہ اچهے ہو
مجهے اس سے نہیں مطلب
مجهے مطلب ہے مطلب سے
میں تم سے لڑ نہیں سکتا
یہاں ہر دوسرا انسان
خدا خود کو سمجهتا ہے
خدا بهی وہ کہ جو اپنی ہی
جهولی بهر نہیں سکتا
میں تم سے صاف کہتا ہوں
مجهے تم سے نہیں الفت
فقط لفظی محبت ہے
میں تم پہ مر نہیں سکتا
تمہاری بات سن لی ہے
بہت دکهہ کی کہانی ہے
سنو تم بعد میں آنا
ابهی کچهہ کر نہیں سکتا

July 1, 2019

سلوک۔۔۔

ہم سے روٹھا بھی گیا ہم کو منایا بھی گیا
پھر سبھی نقش تعلق کے مٹائے بھی گئے۔۔۔

April 11, 2019

دیوانگی۔۔

اس طرح تو اور بھی دیوانگی بڑھ جائے گی
پاگلوں کو پاگلوں سے دور رہنا چاہیئے۔۔۔

April 10, 2019

ادھوری کوششیں۔۔

تمہیں دل سے بُھلانے کی،
شعوری کوششیں کر کے،
تمہیں نہ یاد کرنے کی،
ضروری کوششیں کر کے،
میں خود ہی تھک گئی ہوں اب،
اُدھوری کوششیں کر کے

March 9, 2019

ایک اور سچ

بہت سے لوگ فقط ماں باپ کی خاطر
کہانی موڑ لیتے ہیں
(محبت چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔(منقول

February 27, 2019

غلط فہمی میں مت رہنا۔ ۔۔

محبت کا اثر ہوگا ، غلط فہمی میں مت رہنا
وہ بدلے گا چلن اپنا ، غلط فہمی میں مت رہنا
تسلی بھی اسے دینا ، یہ ممکن ہے میں لوٹ آؤں
مگر یہ بھی اسے کہنا ، غلط فہمی میں مت رہنا
تمھارا تھا ، تمھارا ہوں ، تمھارا ہی رہوں گا میں
میرے بارے میں اس درجہ غط فہمی میں مت رہنا
محبت کا بھرم ٹوٹا ہے اب چھپ چھپ کے روتے ہو
تمھیں میں نے کہا تھا نا غلط فہمی میں مت رہنا
بچالے گا تجھے صحرا کی تپتی دھوپ سے تیمور
کسی کی یاد کا سایا ، غلط فہمی میں مت رہنا ۔
تیمور حسن تیمور

January 26, 2019

ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔۔۔

یہ سیلِ گریہ غبارِ عصیاں کو دھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
کوئی کہیں چھپ کے رونا چاہے تو رو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

یہاں بکھرنے کا غم، سمٹنے کی لذّتیں منکشف ہیں جس پر
وہ ایک دھاگے میں سارے موتی پرو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

جسے ہواؤں کی سرکشی نے بچا لیا دھوپ کی نظر سے
وہ ابرِ آوارہ، دامنِ دل بھگو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

یہ میں ہوں، تم ہو، وہ ایلچی ہے، غلام ہیں اور وہ راستہ ہے
اب اس کہانی کا کوئی انجام ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

ترے لیے عشق جاگتا ہے، ترے لیے حسن جاگتا ہے
سو اب تُو چاہے تو اپنی مرضی سے سو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

یہاں ارادے کو جبر پر اختیار حاصل رہا تو اتنا
کوئی کسی کا، جو ہونا چاہے، تو ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

نئی مسافت کے رتجگوں کا خمار کیسا چڑھا ہوا ہے
یہ نشّہ تم کو ڈبو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی

سلیم کوثر