August 29, 2017

کتابیں کتابوں کے اُوپر



کسی خشک لکڑی کےکیڑے نےکرمِ کتابی سے پوچھا
تمہاری نظر میں یہ سارے شجر کتنے عرصے میں سوُکھیں گے؟
کتنی بہاریں ابھی میرے رستے کو روکھے کھڑی ہیں؟
وہ رستے جہاں سے جہنم کا ساقی مجھے آملے گا؟

وہ کرمِ کتابی کتابوں میں گم تھا
اُسے فکرتھی تو فقط فکر تصدیق روح ِ مقالہ
جہانِ فسردہ کی آتش کہاں سے اُٹھائی گئی تھی؟
کتاب ِ ازل کب کھلی، کیوں کھلی تھی؟
یہ کب  ختم ہوگی؟
وہ اعداد کیسے نکلتے ہیں جن کی کوئی عقلی تاویل ہوتی نہیں ہے؟
وہ مزدور کس کو کہا جارہاہے جسے اپنے آگے نہ پیچھے
کوئی چھوڑناہے
کوئی نسل، کوئی عقیدہ، کوئی شہرتِ دائمی کا قصیدہ
کہاں پر ملے گی وہ ہیگل کی تعمیر کردہ
وہ ’’ہونے نہ ہونے‘‘کے مابین کی راہداری؟
وہ غزلیں کہاں ہیں
جو بعداز سلیمان لکھی گئی تھیں
وہ  رنگین قالین جس پر کسی کی گلابی حسیں ایڑھیوں
کے نشاں تھے

کتابوں کے کیڑے نے لکڑی کے کیڑے کے تشکیل کردہ سوالوں کو
یوں ان سنا کردیا جیسے کانوں میں رُوئی کے گالے دبے ہوں
وہ سرکوجھکائے، جھُکی ناک پر کالی عینک لگائے
غزالی پہ لکھے گئے اِک مخالف مقالے
کے مٹتے حوالوں کوتکنے پرکھنے میں مشغول ہونے کی
جھوٹی اداکاریاں کررہا تھا۔

یہ مغرور کیڑا جو اخلاق پر عزمِ سقراط سے حکمتِ کانٹ تک
کتنی آبی کتابوں کے انبار ازبر کیے سالہاسال سے
علم پر ناگ بن،  پھن کو پھیلائے بیٹھاہوا تھا
کئی ساعتوں تک نہ بولا تو لکڑی کے کیڑے نے
بوسیدہ کرسی کا پایہ اُٹھایا
تو مغرور کیڑے نے عینک کے پیچھے سے آنکھیں گھماتے ہوئے
اُس کو دیکھا
ذرا دیر رک کر تحمّل سےبولا
مجھے پچھلے سوسال سےفرصتیں ہیں
کتابیں کتابوں کے اُوپر پڑی ہیں
کتابوں کے اُوپر کتابیں، کتابوں کے اُوپر کتابیں،کتابوں کے اُوپر کتابیں پڑی ہیں
کتب خانے میرے تسلط میں آکر
مقدمات میں اور مقالوں میں ڈھلتے ہوئے
دن بدن بڑھ رہے ہیں
میں اکیس سوسال میں اتنی فصلوں کا مالک نہیں تھا
مجھے اپنی نسلوں کو اتنی کتابیں کھلانے سے فرصت ملے گی
تو لکڑی کے بارے میں بھی سوچ لونگا

ابھی کچھ بہاریں ذرا صبر کرلو!
تو پھر ہم ہمیشہ ہمیشہ کے ذہنی دباؤ سےفارغ
کسی سبز پیپل کی چھاؤں میں آرام سے بیٹھ کر
خوب تفصیل سے اُس جہنم کی باتیں کرینگے
ابھی بس تسلی کو اتنا کہونگا
کتابوں میں لکھاہے
دوزخ میں پتھرجلیں گے
وہ پتھر جو قسوہ ہیں
دنیا کے سب سے خطرناک پتھر
تو دوزخ میں لکڑی جلانے کا کوئی کہیں تذکرہ ہی نہیں ہے
یہ سن کر وہ لکڑی کیڑا
وہ پیڑوں کی لاشیں چباتاہوا مردہ خوری کامارا، خزاں زاد
 لکڑی کا کیڑا
اداسی کے گھبمیر لہجے میں بولا
تو پھر کیا شجر سارےباقی رہینگے؟
توپھرکیا پرندوں کے گھر سارے باقی رہینگے؟

توکرمِ کتابی نےسر کوہلایا
ذرا مسکرا کر بتایا
پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
مجھے اتنے سالوں، مقالوں میں اک آخری بات معلوم ہوتی رہی ہے
وہ یہ بات ہے کہ،
’’جہنم سے پہلے کہیں کوئی جنت نہیں ہے‘‘
مجھے اتنا معلوم ہےمیرے مزدور بھائی!
کہ صدیوں کا مارا ہوا آدمی تھک چکاہے
جوبَکنا تھا اس کو وہ سب بَک چکاہے
یہ اب جی سکا تو
بشرطیکہ یہ واقعی جی سکا تو
بہاروں کوآنے، درختوں کو جھولا جھلانے سے
کوئی بھی کیڑا نہیں روک پائے گا
انسان ہے، اس کو
کوئی بھی کیڑا کبھی روک سکتا نہیں ہے۔

ادریس آزاد

August 28, 2017

سمجھ۔۔

یہ جو ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں رات کو
رات کیا سمجھ سکے ان معاملات کو

August 25, 2017

وہ زندگی سے کیا گیا۔۔۔

وہ زندگی سے کیا گیا دھواں اڑا کے رکھ دیا
مکاں کے اک ستون نے مکاں گرا کے رکھ دیا

وہ راہ   سے   چلا  گیا   تو راہ  موڑ بن گئی
میرے سفر نے راستہ کہاں چھپا کے رکھ دیا

کسی دیئے کی طرز سے گزر رہی ہے زندگی
یہاں جلا کے رکھ دیا، وہاں بجھا کے رکھ دیا

وجود کی بساط پر بڑی عجیب مات تھی
یقین لٹا کے اٹھ گئے، گماں بچا کے رکھ دیا

عاطف توقیر

August 23, 2017

ایک شعر۔۔۔

مجھے یہ زعم کہ میں حسن کا مصور ہوں
انہیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے۔۔۔۔

August 13, 2017

ہوکا۔۔۔۔

کل بیٹھا کجھ سوچ ریا ساں
گل اک گزرے ویلے دی
اپنے پنڈ دے پپلاں ہیٹھاں
چھوٹی عید دے میلے دی
میں جیہڑا مشہور ہاں ایناں
دل دے بھید لکاون وچ
غم دی تکھی چیک نوں گھٹ کے
اپروں ہسدا جاون وچ
اوس پرانےدن دے وچوں
کر کے یاد اک موکے نوں
زور وی لاکے روک نیئں سکیا
اپنے دل دے ہوکے نوں

(منیر نیازی)

August 9, 2017

کبھی یاد آئے تو پوچھنا۔۔۔

کبھی یاد آئے , تو پوچھنا
ذرا اپنی , خلوتِ شام سے
کسے عشق تھا , تیری ذات سے
کسے پیار تھا , تیرے نام سے
ذرا یاد کر , کہ وہ کون تھا
جو کبھی تجھے بھی , عزیز تھا
وہ جو مر مٹا , تیرے نام پہ
وہ جو جی اٹھا , تیرے نام سے
ہمیں بے رخی کا . نہیں گلہ
کہ یہی وفاؤں کا , ہے صلہ
مگر ایسا , جرم تھا کون سا
گئے ہم , دعا و سلام سے
کبھی یاد آئے , تو پوچھنا
ذرا اپنی , خلوتِ شام سے ...!!!

August 7, 2017

آج پھر۔۔۔۔

آج پھر دل نے اک تمنا کی
آج پھر دل کو ہم نے سمجھایا

August 5, 2017

محبت ایسا نغمہ ہے۔۔۔


 محبت ایسا نغمہ ہے
 ذرا بھی جھول ہے لَے میں
 تو سُر قائم نہیں رہتا

 محبت ایسا شعلہ ہے
 ہوا جیسی بھی چلتی ہو
 کبھی مدھم نہیں ہوتا

 محبت ایسا رشتہ ہے
 کہ جس میں بندھنے والوں کے
 دلوں میں غم نہیں ہوتا

 محبت ایسا پودا ہے
 جو تب بھی سبز رہتا ہے
 کہ جب موسم نہیں ہوتا

 محبت ایسا رستہ ہے
 اگر پیروں میں لرزش ہو
 تو یہ محرم نہیں ہوتا

 محبت ایسا دریا ہے
 کہ بارش روٹھ بھی جاۓ
 تو پانی کم نہیں ہوتا

August 1, 2017

سنو ناراض ہو ہم سے ؟

سنو ناراض ہو ہم سے ؟
مگر ہم وہ ہیں جن کو تو منانا بھی نہیں آتا
کسی نے آج تک ہم سے محبت جو نہیں کی ہے
محبّت کس طرح ہوتی ؟
ہمارے شہر کے اطراف میں تو
سخت پہرہ تھا خزاؤں کا
اور اس شہرِ پریشاں کی فصیلیں
زرد بیلوں سے لدی تھیں
اور اُن میں نہ کوئی خوشبو تھی، نہ کوئی پھول تم جیسا
مہک اُٹھتے ہمارے دیدہ و دل جس کی قُربت سے
ہم ایسے شہر کی سنسان گلیوں میں
کسی سُوکھے ہوئے ویران پتّے کی طرح سے تھے
کہ جب ظالم ہوا ہم پر قدم رکھتی
تو اُس کے پاؤں کے نیچے ہمارا دم نکل جاتا
مگر پت جھڑ کا وہ ویران موسم
سُنا ہےٹل چکا اب تو
مگر جو ہار ہونا تھی
سو وہ تو ہو چکی ہم کو
سُنو ۔ ۔ ۔
ہارے ہوئے لوگوں سے تو روٹھا نہیں کرتے

منقول