July 26, 2016

مزہ آ گیا.....

میرے رشکِ قمر تو نے پہلی نظر، جب نظر سے ملائی مزہ آ گیا
برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی، آگ ایسی لگائی مزہ آ گیا
جام میں گھول کر حسن کی مستیاں، چاندنی مسکرائی مزہ آ گیا
چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا، تو نے ایسی پلائی مزہ آ گیا
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا، بزمِ رنداں میں ساغر کھنکنے لگے
میکدے پہ برسنے لگیں مستیاں، جب گھٹا گھر کے چھائی مزہ آ گیا
بےحجبانہ وہ سامنے آ گئے، اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ اُن کی لڑی یوں میری آنکھ سے، دیکھ کر یہ لڑائی مزہ آ گیا
آنکھ میں تھی حیاہ ہر ملاقات پر، سرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر
اُس نے شرما کے میرے سوالات پہ، ایسے گردن جھکائی مزہ آ گیا
شیخ صاحب کا ایمان مٹ ہی گیا، دیکھ کر حسنِ ساقی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے، لٹ گئی پارسائی مزہ آ گیا
اے فناؔ شکر ہے آج بعدِ فنا، اُس نے رکھلی میرے پیار کی آبرو
اپنے ہاتھوں سے اُس نے میری قبر پر، چادرِ گل چڑھائی مزہ آ گیا
فنا بلند شہری

July 25, 2016

Wohi hay

مهتاب وهی,گل وهی,برسات وهی ھے
اک تو هی نهیں ورنه ھر اک بات وهی ھے
بدلا ھی نھیں دل میں تری یاد کا موسم
تنهایی وهی, درد وھی, رات وهی ھے
محفل میں تری شور بهت ھے مگر اب بهی
پابندی اظهار خیالات وهی ھے
سانسوں میں بسی رهتی ھے اک یاد کی خوشبو
محسوس یه ھوتا ھے میرے ساتھ وهی ھے