December 25, 2015

صلی اللہ علیہ وسلم

صلی اللہ علیہ وسلم !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹھے بیٹھے حشر میں اِک دِن جا پہنچا میں
سارا جُھوٹ اُٹھائے سر پر !!
مکر و دَغا کی ساری چالیں کاندھوں پر !!
پوٹلی میں چند کھوکھلے سجدے !!
ماہ صیام کی بُھوک میں ڈُوبے کھوٹے روزے !!
آنکھوں میں عکس ہائے بُتاں کا پُورا البم ڈول رہا تھا !!
بایاں فرشتہ میرا کھاتہ کھول رہا تھا !!
ٹانگیں تھر تھر کانپ رہی تھیں !!
اَبو امی بہن اور بھائی بیٹا بیٹی بیوی سب میں بُھول چُکا تھا!!
جیسا سُنا تھا !جیسا پڑھا تھا ! حشر ذرا کُچھ اُس سے سِوا تھا !!
سوچ میں گُم تھا اب کیا ہو گا !!
دایاں فرشتہ آلتی پالتی مار کے فارغ بیٹھا تھا 
بائیں ہاتھ پہ حدِ نِگاہ تک دفتر تھا کرتُوتوں کا !!
سوچ میں گُم تھا اَب کیا ہوگا ! کیسے ہو گا ! کیونکر ہو گا ! کون کرے گا !
لمحہ بھر کو ٹھٹکا ! کسی نے نام لیا ہو میرا جیسے !!
شہد سی میٹھی کوئی صدا تھی !!
کانوں میں رَس گھول رہی تھی !!
مُڑ کر دیکھنے والا تھا کہ واپس دُنیا لوٹ آیا 
اور اَب بیٹھا سوچ رہا ہوں !!
تھوڑا بوجھ تو ہلکا کر لُوں
شرم و حیا کا دامن تھاموں !!
مُہلت ہے !! اِس دِل کو تھوڑا نہلا دُوں
مُہلت ہے !! چند سِکے ہی اب چمکا لُوں 
شہد سے میٹھی کوئی صدا جب اِن کانوں پر دَستک دے تو
کم از کم یہ آنکھیں تو اِس قابل ہوں کہ دیکھ سکوں اُس ہستی کو 
جس کی دُعا میں شامل تھا میں !! جس کی دُعا میں شامل ہوں میں !!
جس نے رب سے جب بھی مانگا !! میرا آج اور کل ہی مانگا !!
مُہلت ہے !! اِس دِل کو تھوڑا نہلا دُوں
مُہلت ہے !! چند سِکے ہی اب چمکا لُوں 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

November 15, 2015

October 16, 2015

اور محبت...

مرشد سے کہا دردِمحبت کی دوا دو
"حضرت نے مسکرا کے کہا"اور محبت

October 7, 2015

سب نے پوچھا خزاں کیا ہوتی ہے....

ﺳﺐ ﻧﮯ ﭘُﻮﭼﮭﺎ ﺧﺰﺍﮞ ﮐﯿﺎ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ؟ .
ﺗﻢ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺜﺎﻝ ﺩﯼ ﮬﻮﺗﯽ .
 ﭘُﻮﭼﮭﺎ ﻣﻮﺳﻢ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ؟ .
ﺗﻢ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺩﯼ ﮬﻮﺗﯽ .
 ﭘُﻮﭼﮭﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮔﻬﭩﺎ ﺑﺮﺳﺘﯽ ﮬﮯ؟ .
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﮬﻮﺗﯽ .
 ﭘُﻮﭼﮭﺎ ﺭُﮎ ﺭُﮎ ﮐﮯ ﮐﻮﻥ ﭼﻠﺘﺎ ﮬﮯ؟ .
 ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻝ ﮐﯽ ﻣﺜﺎﻝ ﺩﯼ ﮬﻮﺗﯽ .
 ﮐﺎﺵ !! ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﯾﻮﮞ ﻧﮧ ﮬُﻮﺍ ﮬﻮﺗﺎ .
ﺑﺎﺕ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺳﻨﺒﮭﺎﻝ ﻟﯽ ﮬﻮﺗﯽ .

 ” ﭘﺮﻭﯾﻦ ﺷﺎﮐﺮ

September 15, 2015

شادی اور محبت

کچھ عرصہ پہلے کہیں پڑھا تھا کہ شادی شدہ زندگی میں محبت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا...بڑی عجیب اور بے تکی بات لگی...مگر وقت گزرنے کے ساتھ احساس ہوا کہ واقعی شادی اور محبت دو بلکل  مختلف چیزیں ہیں....بلکہ شادی کی کامیابی میں صرف ایک محبت ہی ہے جس کا ہونا قطعی ضروری نہیں

July 22, 2015

جیون کی تپتی راہوں پر....


جیون کی تپتی راہوں پر
اک عمر سے جاناں، تنہا ہوں
اے ابرگریزاں ، کهل کے برس
میں مانند صحرا تشنہ ہوں
پھر آج پکارا ہے تجهکو
پهر ہونے لگا ہے دل بوجھل
کب دائم ساتھ کی خواہش کی
آ ہاتھ پکڑ، دو گام تو چل
دو بوند فقط ہے پیاس میری
ہیں برسوں سے نیناں جل تھل
.......جیون کی تپتی راہوں پر
....اک عمر سے جاناں تنہا ہوں
اے ابر گریزاں کهل کے برس
میں صحرا ہوں میں تشنہ ہوں
کوئی عذر ، دلیل نہ دے جاناں
تیری ہر بات سے قائل ہوں
ہے کاسئہ دل خالی کب سے
دو سکے ڈال دے سائل ہوں
ہے تن من سب کرچی کرچی
آ ، دیکھ مسیحا گهائل ہوں
جیون کی تپتی راہوں پر
اک عمر سے جاناں، تنہا ہوں
اے ابر گریزاں کهل کے برس
میں مانند صحرا تشنہ ہوں.

June 8, 2015

اُڑان

ایک حد سے آگے سوچ کی پرواز نہیں ہے
اُڑنا بھی اگر چاہوں،دمِ پرواز نہیں ہے

May 25, 2015

خشبوؤں کے مسافر

خشبوؤں کے سفر پہ نکلے ہوئے مسافر
کبھی بھی تنہا نہیں ہوئے ہیں
بہاریں اُن کی رفیق ہیں
وہ گلوں کے سانچوں میں ڈھل گئے ہیں
خزاں کی رُت نے بھی اُن کے رستے کو چھوڑ کر اپنی راہ لی ہے
وہ بے خطر اپنے راستے پر رواں دواں ہیں

May 23, 2015

میرے قلم سے....

میری سوچیں مجھے مجبور کرتی ہیں
کہ میں پھر سے قلم پکڑوں
بہت سے انکہےلفظوں کوپھر  آواز میں بدلوں
بہت سے ایسے موضوع ہیں
جو شاید منتظر ہیں کہ
بلا عنوان سےاُن کو کوئی عنوان مل جائے
ہزاروں بے ضمیروں کو
 بھی کچھ احساس ہو جائے
کوئی تو ہوجو اُٹھے اور بدل دے ان کی تقدیریں
کوئی تو کاتبِ تقدیر کے آگے یوں جھک جائے
کوئی تو ہو جو اُٹھے اور مٹا دے ظلمتوں کو یوں
چراغاں ہی چراغاں پھر میرے اطراف ہو جائے
مگر اے کاش لکھ پاؤں کچھ ایسے لفظ بھی جن سے
میں اپنے دیس کے اُن بے زبانوں کو  زباں دے دوں
جو روتے ہیں سسکتے ہیں
بہت فریاد کرتے ہیں
مگر کچھ کہ نہیں سکتے
امارت اور فقر کی دوڑ نے
اُن کی زبانیں گنگ کر دی ہیں
وہ ششدر ہیں....
کہ یہ کیسا تماشا ہے؟؟
ہے جس کے پاس سب کچھ ہی
اُسی کو اور ملتا ہے
جو خالی ہاتھ بیٹھے ہیں
تہی داماں ہی رہتے ہیں
یہ کیا تقسیم ہے یا رب...!!
انہی سوچوں میں رہتے ہیں
کوئی آواز ایسی ہو
جو ان سب بے ضمیروں کو
ذرا جھنجھوڑ دے جا کر
کوئی اُن کو یہ بتلائے
کہ اُن کی عیش و عشرت میں
کمی ہر گز نہیں ہو گی
اگر رب کی عطا سے یہ
بھلا اُن کا بھی کچھ کر دیں
تو یہ تقسیم مٹ جائے
اور اس خود ساختہ تقسیم کا
 یہ قاعدہ پھر ضرب ہو جائے
سبھی کو حق ملے اُن کا
کوئی نا حق نہ رہ جائے
مگر اے کاش یہ آواز
 دلوں تک بھی پہنچ جائے

May 10, 2015

میرے قلم سے میری ماں کے لئیے......

ان کی مسکراہٹ ہی میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے
وہ جن کے پاؤں کے نیچے میرے حصے کی جنت ہے..

May 9, 2015

غزل....


یہ کیا کہ اک جہاں کو کرو محوِ اضطراب
یہ کیا کہ ایک دل کو شکیباں نہ کر سکو
ممکن ہے میرے بغیر بھی بِتا لو زندگی
ممکن ہے اپنے ساتھ بھی گزارا نہ کر سکو
ایسا نہ ہو یہ درد بنے دردِ لازوال
ایسا نہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کر سکو
شاید تمہیں بھی چین نہ آئے میرے بغیر
شاید یہ بات تم بھی گوارا نہ کر سکو
کیا جانے پھر ستم بھی میسر ہو نہ ہو
کیا جانے یہ کرم بھی کرو یا نہ کر سکو
اللہ کرے جہاں کو میری یاد بھول جائے
اللہ کرے کہ تم کبھی ایسا نہ کر سکو
میرے سوا کسی کی نہ ہو تم کوجستجو
.....میرے سوا کسی کی تمنا نہ کر سکو


May 3, 2015

خیال

تمام عمر اُسی کے خیال میں گزری
 خیال میرا جسے عمر بھر نہیں آیا

April 19, 2015

سوچ

سوچتا ہوں کہ موت آنے تک
زندہ رہنے میں کیا قباحت ہے

April 12, 2015

نا سمجھی.....

           ..... عشق اتنے قریب سے گزرا
      میں یہ سمجھا کہ ہو گیا مجھ کو

April 8, 2015

اک شعر

اب ہم ہیں اور کشمکشِ اضطرابِ دل
وہ دن گئے کہ دعویِٰ صبر و قرار تھا

February 10, 2015

تعارف

مُجھ کو میرے وجود کی حد تک نہ جانیے
بے حد ہوں بے حساب ہوں بے انتہا ہوں میں

January 24, 2015

کوٹ رادھا کشن کا بھٹا....

کوٹ رادھا کشن کا بھٹا

مہندس ہوں
مکانوں کی مگر تعمیر سے
لگتا ہے ڈر مجھ کو
کسی بھی اب عمارت میں
کوئی بھی اینٹ لگتی ہے
نظر آتے ہیں اس میں
نقش بِریاں جھلسے چہروں کے
پگھلتے ہاتھ، ٹانگیں، پیٹ، آنتیں
تڑتڑاتی ہڈیاں ساری
دکھائی دینے لگتی ہیں
سنائی دینے لگتی ہیں
اذیت ناک آوازیں
دریچوں میں، چھتوں میں، بام و در میں گونجتی ہیں
سوختہ روحوں کی چیخیں
گوشت جلنے کی سڑاند آتی ہے دیواروں سے
یوں لگتا ہے
ہر اک خشت جیسے
کوٹ رادھا کے پژاوے ہی سے آئی ہو
بجائے کوئلوں کے
زندہ انسانوں کو دہکا کر پکائی ہو !

(شاعر: نصیر احمد ناصر)

January 3, 2015

نیا سال...

.......میرے قلم سے

                  نیا سال

سنو ایسا نہیں ہے کہ

گزشتہ سال کی سب تلخیاں

قلب و ذہن سے محو ہو جایں

میرے اپنے چمن کے پھول جو روندے گےُ ہیں

سب بھلا بیٹھیں

ابھی اس آگ کی حدت سے میرا خون

جلتا ہے

جو دشمن نے میرے آنگن میں بھڑکای  ُ

نہ جانے کتنے خوابوں کوجلا کر راکھ

 کر ڈالا

ابھی اُن تلخ یادوں کا تو ہر اک زخم

تازہ ہے

بھلایا جا نہیں سکتا

مگر یہ بھی تو سچ ے نا

میری آنکھوں میں میرا آنے والا کل

بھی زندہ ہے

جسے میری ضرورت ہے

جو مجھ سے پوچھتا ہے کہ

بتاؤ ساتھ دو گے نا

یونہی ڈٹ کر رہو گے نا

نہ جب تک دن وہ آ جاےْ

کہ ہر سو پھول کھلتے ہوں

اور اُنکو روندے جانے کا

کویْ خدشہ نہ باقی ہو

بتاؤ ساتھ دو گے نا

اک ایسا کل بنو گے نا؟؟

تو پھر آؤ.....

ہم آگے بڑھ کے اپنے آنے والے کل کا

استقبال کرتے ہیں

اسے سب مل کے ہر اک خوف سے

آزاد کرتے ہیں

چلو آؤ....

ہم اپنا کل بدلتے ہیں....