December 29, 2010

اے نئے سال بتا؟؟؟

اے نئے سال بتا تُجھ میں نیا کیا ھے؟
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دِن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر بات وہی
آسمان بدلا ہے نہ بدلی ہے یہ افسُردہ زمیں
اِک ہندسے کا بدلنا کوئی جِدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کِسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
بے سبب دیتے ہیں کیوں لوگ مُبارِک بادیں
کیا سبھی بھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تُو نیا ہے تو دِکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ اِن آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی

لوگ ملتے ہیں تو۔۔۔۔

لوگ مِلتے ہیں تو دیتے ہیں مُبارِک بادیں
جیسے زندہ ہوں ابھی سب وہ پُرانی یادیں
ہاں وہی لوگ جو برہم تھے خفا تھے مُجھ سے
طنز کرتے تھی میری نوئے خط کوشی پر
میرے پِندارِمُحبت کی اُڑاتے تھی ہنسی
مُجھ سے مِلتے تھی صدا ناصح بن کر
کہتے تھے کہ میں کوئی بہانہ کر کے
بد گُمانی کا کوئی رنگ نظر میں بھر کے
تیری چاہت سے رفاقت سے کِنارا کر لوں
جو گوارہ نہیں مُجھ کو وہ گوارہ کر لوں
تجھ سے ملنے میں کُچھ اوہام کی رُسوائی تھی
کُچھ فرسودہ روایات پہ حرف آتا تھا
اب یہ سب لوگ بہت خوش ہیں کہ جیت اِن کی ہوئی
میں مگر اب پشیماں ہوں یہ کیا میں نے کِیا
کون تُجھ سا تھا؟ تُجھے کس کے لیٔے چھوڑ دِیا۔۔۔

December 22, 2010

Love of a Daughter for her Father,,,!!!

بیٹی۔۔۔۔۔
مُجھے اتنا پیار نہ دو بابا
کل جانے مُجھے نصیب نہ ہو
یہ جو ماتھا چُوما کرتے ہو
کل اِس پر شِکن عجیب نہ ہو
میں جب بھی روتی ہوں بابا
تم آنسو پونچھا کرتے ہو
مُجھے اِتنی دور نہ چھوڑ آنا
میں روؤں اور تم قریب نہ ہو
میرے ناز اُٹھاتے ہو بابا
مُجھے لاڈ لُڈاتے ہو بابا
میری چھوٹی چھوٹی خواہش پر
تم جان لُٹاتے ہو بابا
کل ایسا ہو اِک نگری میں
میں تنہا تم کو یاد کروں
اور رو رو کر فریاد کروں
اے اللہ میرے بابا سا
کوئی پیار جِتانے والا ہو
میرے ناز اُٹھانے والا ہو
میرے بابا مُجھ سے عہد کرو
مُجھے تم چُھپا کر رکھو گے
دنیا کی ظالم نظروں سے
مُجھے تم بچا کر رکھو گے
بابا۔۔۔۔۔۔۔
ہر دم ایسا کب ہو پایا ہے
جو سوچ رہی ہو لاڈو تم
وہ سب تو بس ایک مایا ہے
کوئی باپ اپنی بیٹی کو
کب جانے سے روک پایا ہے
سچ کہتے ہیں دنیا والے
بیٹی تو دھن ہی پرایا ہے
گھر گھر کی یہی کہانی ہے
دنیا کی رِیت پُرانی ہے
ہر باپ نِبھاتا آیا ہے
تیرے بابا کو بھی نِبھانی ہے۔۔۔

December 19, 2010

ہر چیز اپنے وقت پر اچھی لگتی ہے۔۔۔

نیکیاں کمانے کا سہی وقت جوانی ہے۔۔۔
ہم" نیکیاں" اُس وقت کرتے ہیں جب" بُرائیاں" کرنے کے قابل نہیں رہتے۔۔
(اشفاق احمد)

December 15, 2010

ریت اِس نگر کی ہے۔۔۔

تتلیوں کے موسم میں نوچنا گُلابوں کا
ریت اِس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے
دیکھ کر پرندوں کو باندھنا نشانوں کا
رِیت اس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے
تم ابھی نئے ہو ناں اِس لیئے پریشاں ہر
آسماں کی جانِب اِس طرح سے مت دیکھو
آفتیں جب آنی ہوں
ٹوٹنا ستاروں کا
ریت اِس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے
شہر کے باشندے نفرتوں کو بو کر بھی
اِنتظار کرتے ہیں فصل ہو مُحبت کی
چھوڑ کرحقیقت کو ڈھونڈنا سرابوں کا
ریت اِس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے
اجنبی فضاؤں میں اجنبی مُسافر سے
اپنے ہر تعلق کو دائمی سمجھ لینا
اور جب بچھڑ جانا مانگنا دُعاؤں کا
ریت اِس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے
خامشی میرا شیوہ گفتگو ہُنر اُن کا
میری بے گُناہی کو لوگ کیسے مانیں گے
بات بات پر جب کے
مانگنا حوالوں کا
ریت اِس نگر کی ہے
اور جانے کب سے ہے۔۔۔

December 14, 2010

اگر کبھی میری یاد آئے۔۔۔

اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخلِ فلک سے اُڑ کر
تمہارے قدموں میں آ گِرے تو
یہ جان لینا
وہ اِستعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے۔۔
مگر یہ مُمکن ہی کس طرح ہے
کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اُس کی دیوارِ جاں نہ ٹُوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بُھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے
گُریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئنوں میںتمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خشبوؤں میں
نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گرد ہوتی مُسافتوں میں تمہیں ملوں کا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو جان لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی سُلگ چُکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے اِن پتنگوں کی خاک
دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رُک کے
تم کو صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو
تو اُس جزیرے پہ بھی اُترنا۔۔۔۔

یہ بارشیں بھی تم سی ہیں

یہ بارشیں بھی تم سی ہیں
جو برس گئیں تو بہار ہیں
جو ٹھر گئیں تو قرار ہیں
کبھی آ گئیں یونہی بے سبب
کبھی چھا گئیں یونہی روز و شب
کبھی شور ہیں
کبھی چُپ سی ہیں
یہ بارشیں بھی تم سی ہیں۔۔۔

December 11, 2010

تنہائی

دنیا کی پُر شور فضا میں
اپنا اپنا درد چُھپائے
تنہائی کے گھور خلا میں
ڈُوب رہا ہے ہر اِک تنہا
تنہائی کا درد چُھپائے
پِھرتا ہے آوارہ بادل
کُوچہ کُوچہ قریہ قریہ
جھانک رہا ہے ڈھونڈ رہا ہے
کوئی ساتھی۔۔۔
پر نظروں میں دُور دُور تک
ویرانہ ہی ویرانہ ہے
تنہائی ہی تنہائی ہے
تاروں سے مسحور فضا میں
بھٹک رہا ہے چاند اکیلا
گردش ہی گردش ہے پیہم
کوئی نہ رستہ کوئی نہ منزل
ہر دم منزل ڈھونڈنے والے
سب نے ڈھونڈا کس نے پایا
کس نے پایا کس نے کھویا
پانے والے کھو دیتے ہیں
کھونے والے پا نہیں سکتے
پھر تُو کس اُمید پہ اب تک
یوں آوارہ گُھوم رہا ہے؟
چُپکے سے اپنے ہی من میں
اِک لمحے کو جھانک ذرا تُو
ویرانی ہی ویرانی ہے
تنہائی ہی تنہائی ہے
جھیل کنارے شام سویرے
ھنس اکیلا گھُوم رہا ہے
دُور اُفق پر نظریں گاڑے
جانے کس کو دیکھ رہا ہے
دیکھ رہا ہے سوچ رہا ہے
کتنے دن یوں بیت گئے ہیں
کتنی راتیں بِھیگ چُکی ہیں
کتنی شامیں صُبح ہوئی ہیں
کتنی صُبحیں شام ہوئی ہیں
جانے والے جا بھی چُکے ہیں
آنے والے کبھی نہ آئے
اِک دن یونہی تکتے تکتے
یہ آنکھیں پتھرا جائیں گی
تو دل سے آواز اُٹھے گی
مت رو پیارے مت رو پیارے
تنہا آنا تنہا جانا
اِس دُنیا کی رِیت ہے پیارے
دُور کہیں اِک جوگن بیٹھی
راہ کسی کی دیکھ رہی ہے
باہر اِک طُوفان بپا ہے
بند کواڑوں سے ٹکرا کے
تُند بگولے چیخ رہے ہیں
اِن چیخوں سے تھراتی ہے
ڈرتی اور گھبرا جاتی ہے
لیکن پھر بھی ہر دستک پر
بند کواڑوں کو تکتی ہے
تکتی ہے اور سوچ رہی ہے
پھر کُچھ سوچ کے بڑھ جاتی ہے
جانے کون کھڑا ہو باہر
میں اپنا آنچل تو سنبھالوں
اپنے آپ کو دیکھتی ہے
چلتی اور ٹھٹکتی ہے پھر
شرماتی اور مُسکاتی ہے
اور پھر سوچ کے بڑھ جاتی ہے
جانے کب سے کھڑا ہو باہر
بیچارہ مجبُور مُسافر
جلدی سے دروازہ کھولوں
آہستہ سے آگے بڑھ کر
جوگن نے پٹ کھول دیے ہیں
آنے والا سرد ہوا کا اِک جھونکا تھا
سناٹا ہی سناٹا ہے
ویرانی ہی ویرانی ہے
تُو بھی تنہا میں بھی تنہا۔۔۔۔۔؛؛؛

December 3, 2010

ڈر

ساریاں سئیاں پانی نُوں گئیاں کئی آون بھر بھر کے
جس نے بھریا سِر تے دھریا قدم رکھن ڈرڈر کے

December 1, 2010

REALITY..!!

گُلاب چہرہ، شباب صورت
جو دل میں بستی ہے ایک مورت
جو دل کی کشتی کا نا خُدا ہے
حدوں سے میری وہ ماورا ہے۔۔۔