لوگ مِلتے ہیں تو دیتے ہیں مُبارِک بادیں
جیسے زندہ ہوں ابھی سب وہ پُرانی یادیں
ہاں وہی لوگ جو برہم تھے خفا تھے مُجھ سے
طنز کرتے تھی میری نوئے خط کوشی پر
میرے پِندارِمُحبت کی اُڑاتے تھی ہنسی
مُجھ سے مِلتے تھی صدا ناصح بن کر
کہتے تھے کہ میں کوئی بہانہ کر کے
بد گُمانی کا کوئی رنگ نظر میں بھر کے
تیری چاہت سے رفاقت سے کِنارا کر لوں
جو گوارہ نہیں مُجھ کو وہ گوارہ کر لوں
تجھ سے ملنے میں کُچھ اوہام کی رُسوائی تھی
کُچھ فرسودہ روایات پہ حرف آتا تھا
اب یہ سب لوگ بہت خوش ہیں کہ جیت اِن کی ہوئی
میں مگر اب پشیماں ہوں یہ کیا میں نے کِیا
کون تُجھ سا تھا؟ تُجھے کس کے لیٔے چھوڑ دِیا۔۔۔
No comments:
Post a Comment