May 29, 2017

مَحبت بیس پچّیس تیس برسوں میں نہیں ہوتی

مَحبت بیس پچّیس تیس برسوں میں نہیں ہوتی
یہ پَل بھر تا زَمَن کی وسعتوں کو ڈھانپ لیتی ہے
(یہ پل کا گیان ہے اور عمر بھر کامِل نہیں ہوتا)
.
کسی نایافت کی دریافت، غیبی ہاتھ کے احساں
تن و جیون، حیات و کائنات و وقت کی بخشش
منال و رزق و صحّت، درک و فہم و آگہی کی دین
نہ ہو قطمیر کا مالک جو، اس کو اک جہاں دینا
.
نعَم، احساس، ارماں، اوّل و آخر عطا جس کی
اسی کی یافت ڈھل کر شکر میں ہے بے پناہ تسلیم
لہُ ہے قلب ممنوں، ذہن ساجد، درک پُر تعظیم
.
یہ حالت بیس پچیس تیس برسوں میں نہیں ہوتی
یہ حق باطل کا یُدھ ہے عمر بھر فیصل نہیں ہوتا
.
اکیلا دل لکھوکھا خواہشوں سے کس طرح نپٹے
زباں یکبارگی ہو نوع نوع کی کس طرح ذائق
بہت مجبور ٹھہرے اختیارِ خیر و شر کے بیچ
اتر آ مستعان اب تو، مَیں نِربَل، روگ یہ سرتیچھ
.
عبادت بیس پچیس تیس برسوں میں نہیں ہوتی
یہ دل کا شکر ہے تعمیل کر کر اور بڑھتا ہے ـ ـ ـ
احمد سلمان اشرف

May 7, 2017

”کبھی یاد آؤ تو اس طرح“

”کبھی یاد آؤ تو اس طرح“

کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں

تمہیں دیکھنے کا جو شوق ھو
تو دیارِ ھجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں

کبھی یاد آؤ تو اس طرح

کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑھے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کِھل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رھگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
میرا درد پھر سے غزل بنے

کبھی گنگناؤ تو اس طرح
میرے زخم پھر سے گلاب ھوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
میری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں

کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو

نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو

یونہی خوش پھرو ، یونہی خوش رھو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں

کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں

May 5, 2017

چنچل البیلی لڑکی

وہ چنچل البیلی لڑکی

وہ چنچل البیلی لڑکی میری نظمیں یوں پڑھتی ہے
جیسے ان نظموں کا محور
اس کی اپنی ذات نہیں ہے
یعنی اتنی سندر لڑکی اور بھی ہو سکتی ہیں
جیسے اس کو علم نہیں یہ ساری باتیں اس کی ہیں
ساری گھاتیں اس کی ہیں
ہر آہٹ ہے اس کی خوشبو سب سائے ہیں اس کے سائے
سارے محل اس کے ہیں
ہر خوشبو ہے اس کی خوشبو سب چہرے ہیں اس کے چہرے
سارے آنچل اس کے ہیں
جیسے اس کو علم نہیں ہے اس لڑکی کے سارے کام
سارے نام اسی کے ہیں
ہر کھڑکی ہے اس کی کھڑکی سارے بام اسی کے ہیں
اس لڑکی کے نام سے میں نے جو کچھ اپنے نام لکھا ہے
اس سے ہی منسوب ہوا
شاید میرا وہم ہو لیکن میں نے یہ محسوس کیا ہے
جب میں نظم سناتا ہوں وہ آنکھ چرانے لگتی ہے
مجھ سے نظریں مل جائیں تو وہ شرمانے لگتی ہے
کچھ لمحے وہ چنچل لڑکی گم سُم ہو جاتی ہے
لیکن تھوڑی دیر میں پھر سے پتھر کی ہو جاتی ہے
جیسے میری نظم کی لڑکی

امجد اسلام امجد

May 2, 2017

Breath taking

تَعلق رکھ لِیا باقی، یقیں اب توڑ آیا ہوں
کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں

تمہارے ساتھ جینے کی قَسم کھانے سے کچھ پہلے
میں کچھ وعدے، کئی قَسمیں کہیں پر توڑ آیا ہوں۔۔۔۔۔۔!

محبت کانچ کا زنداں، یونہی سنگِ گِراں کب تھی
جہاں سَر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سَر پھوڑ آیا ہوں

پلٹ کر آ گیا لیکن یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے وہیں پر چھوڑ آیا ہوں۔

اُسے جانے کی جلدی تھی، سو میں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہیں تک چھوڑ آیا ہوں