September 28, 2017

تمہاری یاد کا موسم

کہیں جب یاد کے موسم کی آمد پر
کوئی غنچہ کِھلا دل میں
کہیں جب درد کی خوشبو سے
مہکے سب درودیوار تو دل نے
غموں کے ساز پر
 اک ان سنا سا گیت یوں گایا
کہ سارے خواب آنسو بن کر ان آنکھوں سے بہ نکلے
تو یاد آیا
کہ ہم کو ایک مدت ہو گئی ہے دل کے آنگن میں
پرانے خواب لیکر
یاد کا موسم نہیں اترا
بہت عرصے سے شبنم آنسوؤں کی
پھول سے چہرے نہیں دھوتی
بہت عرصے سے ہاتف کچھ نہیں کہتے
بس خاموش رہتے ہیں
کہاں سے ڈھونڈ لاؤں اب حسیں یادوں کے موسم کو
کہ میرے واسطے تو زیست کا پیغام یادیں تھیں
کئ بیتے ہوئے، گزرے ہوئے
پُر نور قصے یاد کرنے کے بہانے
وہ حسین یادیں
خدا کی سمت سے مجھ پر
تو اک انعام یادیں تھیں
جو غرقِ آب سیپی کی طرح سے اپنے سینے میں
بہت سے موتیوں سے راز رکھتی تھیں
وہ یادیں
جو مغنی کی صدا سے قیمتی اور دلنشین آواز رکھتی تھیں
نجانے کیا عذاب آیا
مگر اب کے
مجھ سے یاد کے موسم بچھڑ بیٹھے
مجھے تو ایک مدت ہو گئی ہے دل کے آنگن میں
پرانے خواب لیکر یاد کا موسم نہیں اترا
سیاہ راتوں میں نظریں اب فلک پر
بدلیوں میں چاند کے چھپنے کے منظر کو نہیں تکتیں
سمندر کی تہوں میں ڈوبتا سورج
بہت عرصہ ہوا بس ڈوب جاتا ہے
وہ ہم سے کچھ نہیں کہتا
تڑپتی زرد کرنوں سے بھی اب دل میں
کوئی ہلچل نہیں مچتی
غموں کے موسموں کے رنگ
اب دل کے نگر میں پھیل کر بھی
آنکھ سے آنسو بہانے میں سدا ناکام رہتے ہیں
وہ آنسو
جاتے جاتے ساتھ اپنے لے گئے تھے تم
وہ موسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاد کے موسم بھی اب شاید
تمہارے پاس ہی ہونگے
میرا وجدان کہتا ہے
کہ وہ یادوں کی باتیں ساتھ اپنے لے گئے تھے تم
مگر دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرا سی دیر کو گر
مہربان ہوجاو تم مجھ پر
تو کچھ خوابوں کے منظر
کچھ حسین یادیں
زرا سی دیر کو بھیجو
کہ مجھ کو ایک مدت ہو گئی ہے دل کے آنگن میں
پرانے خواب لیکر یاد کا موسم نہیں اترا۔۔۔۔
منقول

September 19, 2017

وہ نہیں رہا۔ ۔۔

وہ جو خوشبوؤں کی فصیل تھی مرے چارسو، وہ نہیں رہی
مرے چارسو، وہ جو روشنی کا حصار تھا وہ نہیں رہا

وہ جو رنگ و بو کا شکار تھا، وہ جو گل رخوں پہ نثار تھا
وہ جو مبتلائے بہار تھا، دل زار تھا، وہ نہیں رہا

غم جسم و جاں ، غم دوستاں ، غم رفتگاں بھی بجا مگر
وہ جو غم کدے کا نکھار تھا، غم یار تھا، وہ نہیں رہا

وہی جلوہ گاہ جمال ہے ، وہی رسم و راہ جنوں مگر
سر عاشقاں کا جو بانکپن سردار تھا، وہ نہیں رہا

وہ کرم رہا نہ ستم رہا، نہ خوشی رہی نہ وہ غم رہا
جو عنایتوں کا، شکایتوں کا شمار تھا، وہ نہیں رہا

September 14, 2017

کاش۔ ۔۔۔

کاش ہم سمجھ لیتے
منزلوں کی چاہت میں
راستہ بدلنے سے
فاصلہ نہیں گھٹتا
دو گھڑی کی قُربت میں
چار پل کی چاہت میں
لوگ لوگ رہتے ہیں
قافلہ نہیں بنتا
ہاتھ میں دیا لے کر
ہونٹ پر دعا لے کر
منزلوں کی جانب کو
چل بھی دیں تو کیا ہو گا
خواہشوں کے جنگل میں
اتنی بھیڑ ہوتی ہے
عمر کی مُسافت میں
راستہ نہیں ملتا

September 10, 2017

Beautiful ..

ﺭﻭﺯ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﭼﺎﻧﺪ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻭﻗﺖ ﺑﮯ ﻭﻗﺖ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﭼﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﮯ ﭼﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺍ ﺟﺎﮔﺘﺎ ﺧﻮﺍﺏ
ﺭﻭﺯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺭﻭﺯ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﻝ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺭﻭﺯ ﺷﯿﺸﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﻧﺴﻮ ﺫﺭﺍ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭼﻠﻮ
ﺩﮬﮍﮐﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
راحت اندوری

September 5, 2017

مجھے بے خودی یہ تم نے۔۔بھلی چاشنی چکھائی۔۔

 نہ وصال ہے نہ ہجراں ،نہ سرور ہے نہ غم
 جسے کہیے خوابِ غفلت ،سو وہ نیند مجھ کو آئی

September 1, 2017

دعا

میرے کاسۂ شب و روز میں
کوئی شام ایسی بھی ڈال دے
سبھی خواھشوں کو ھرا کرے
سبھی خوف دِل سے نکال دے
__________
(امجد اسلام امجد)