September 10, 2017

Beautiful ..

ﺭﻭﺯ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﭼﺎﻧﺪ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻭﻗﺖ ﺑﮯ ﻭﻗﺖ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﭼﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﮯ ﭼﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺍ ﺟﺎﮔﺘﺎ ﺧﻮﺍﺏ
ﺭﻭﺯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺭﻭﺯ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﻝ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺭﻭﺯ ﺷﯿﺸﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﻧﺴﻮ ﺫﺭﺍ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭼﻠﻮ
ﺩﮬﮍﮐﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
راحت اندوری

2 comments:

Unknown said...

ایک ایک شعر اپنی جگہ بہت اعلٰی ہے ۔ مجھے راحت اندوری کے بارے میں کچھ مہینے پہلے ہی پتہ چلا ۔ اور اُن کا اندازِ بیاں ۔ اُففف ۔۔۔ میں تو کہوں گا لوِنگ لیجنڈ ہیں یہ

Rida said...

بلکل۔ ۔۔ضروری نہیں ہوتا کہ مشکل الفاظ سے ہی اپنی بات متاثر بنائی جائے۔ جو سادہ اندازِ بیاں دل میں اترتا ہے اسکا کوئی مقابلہ نہیں۔ اور ان صاحب کو یہ فن خوب آتا ہے