مَحبت بیس پچّیس تیس برسوں میں نہیں ہوتی
یہ پَل بھر تا زَمَن کی وسعتوں کو ڈھانپ لیتی ہے
(یہ پل کا گیان ہے اور عمر بھر کامِل نہیں ہوتا)
.
کسی نایافت کی دریافت، غیبی ہاتھ کے احساں
تن و جیون، حیات و کائنات و وقت کی بخشش
منال و رزق و صحّت، درک و فہم و آگہی کی دین
نہ ہو قطمیر کا مالک جو، اس کو اک جہاں دینا
.
نعَم، احساس، ارماں، اوّل و آخر عطا جس کی
اسی کی یافت ڈھل کر شکر میں ہے بے پناہ تسلیم
لہُ ہے قلب ممنوں، ذہن ساجد، درک پُر تعظیم
.
یہ حالت بیس پچیس تیس برسوں میں نہیں ہوتی
یہ حق باطل کا یُدھ ہے عمر بھر فیصل نہیں ہوتا
.
اکیلا دل لکھوکھا خواہشوں سے کس طرح نپٹے
زباں یکبارگی ہو نوع نوع کی کس طرح ذائق
بہت مجبور ٹھہرے اختیارِ خیر و شر کے بیچ
اتر آ مستعان اب تو، مَیں نِربَل، روگ یہ سرتیچھ
.
عبادت بیس پچیس تیس برسوں میں نہیں ہوتی
یہ دل کا شکر ہے تعمیل کر کر اور بڑھتا ہے ـ ـ ـ
احمد سلمان اشرف
No comments:
Post a Comment