میری سوچیں مجھے مجبور کرتی ہیں
کہ میں پھر سے قلم پکڑوں
بہت سے انکہےلفظوں کوپھر آواز میں بدلوں
بہت سے ایسے موضوع ہیں
جو شاید منتظر ہیں کہ
بلا عنوان سےاُن کو کوئی عنوان مل جائے
ہزاروں بے ضمیروں کو
بھی کچھ احساس ہو جائے
کوئی تو ہوجو اُٹھے اور بدل دے ان کی تقدیریں
کوئی تو کاتبِ تقدیر کے آگے یوں جھک جائے
کوئی تو ہو جو اُٹھے اور مٹا دے ظلمتوں کو یوں
چراغاں ہی چراغاں پھر میرے اطراف ہو جائے
مگر اے کاش لکھ پاؤں کچھ ایسے لفظ بھی جن سے
میں اپنے دیس کے اُن بے زبانوں کو زباں دے دوں
جو روتے ہیں سسکتے ہیں
بہت فریاد کرتے ہیں
مگر کچھ کہ نہیں سکتے
امارت اور فقر کی دوڑ نے
اُن کی زبانیں گنگ کر دی ہیں
وہ ششدر ہیں....
کہ یہ کیسا تماشا ہے؟؟
ہے جس کے پاس سب کچھ ہی
اُسی کو اور ملتا ہے
جو خالی ہاتھ بیٹھے ہیں
تہی داماں ہی رہتے ہیں
یہ کیا تقسیم ہے یا رب...!!
انہی سوچوں میں رہتے ہیں
کوئی آواز ایسی ہو
جو ان سب بے ضمیروں کو
ذرا جھنجھوڑ دے جا کر
کوئی اُن کو یہ بتلائے
کہ اُن کی عیش و عشرت میں
کمی ہر گز نہیں ہو گی
اگر رب کی عطا سے یہ
بھلا اُن کا بھی کچھ کر دیں
تو یہ تقسیم مٹ جائے
اور اس خود ساختہ تقسیم کا
یہ قاعدہ پھر ضرب ہو جائے
سبھی کو حق ملے اُن کا
کوئی نا حق نہ رہ جائے
مگر اے کاش یہ آواز
دلوں تک بھی پہنچ جائے
No comments:
Post a Comment