میرے رشکِ قمر تو نے پہلی نظر، جب نظر سے ملائی مزہ آ گیا
برق سی گر گئی، کام ہی کر گئی، آگ ایسی لگائی مزہ آ گیا
جام میں گھول کر حسن کی مستیاں، چاندنی مسکرائی مزہ آ گیا
چاند کے سائے میں اے میرے ساقیا، تو نے ایسی پلائی مزہ آ گیا
نشہ شیشے میں انگڑائی لینے لگا، بزمِ رنداں میں ساغر کھنکنے لگے
میکدے پہ برسنے لگیں مستیاں، جب گھٹا گھر کے چھائی مزہ آ گیا
بےحجبانہ وہ سامنے آ گئے، اور جوانی جوانی سے ٹکرا گئی
آنکھ اُن کی لڑی یوں میری آنکھ سے، دیکھ کر یہ لڑائی مزہ آ گیا
آنکھ میں تھی حیاہ ہر ملاقات پر، سرخ عارض ہوئے وصل کی بات پر
اُس نے شرما کے میرے سوالات پہ، ایسے گردن جھکائی مزہ آ گیا
شیخ صاحب کا ایمان مٹ ہی گیا، دیکھ کر حسنِ ساقی پگھل ہی گیا
آج سے پہلے یہ کتنے مغرور تھے، لٹ گئی پارسائی مزہ آ گیا
اے فناؔ شکر ہے آج بعدِ فنا، اُس نے رکھلی میرے پیار کی آبرو
اپنے ہاتھوں سے اُس نے میری قبر پر، چادرِ گل چڑھائی مزہ آ گیا
فنا بلند شہری
No comments:
Post a Comment