January 3, 2016

افرودیتی کے مندر پر

افرودیتی کے مندر پر

۔۔

ایتھِنا!
میں ترا سقراط
جو پی پی کے پَلا زہر کے جام
ایتھِنا!
یہ میرے پیالے میں جو
تھوڑا سا بچا ہے
یہ جُنُوں ہے
تو قبا اب بھی سلامت کیوں ہے؟
اور نہیں ہے
۔۔۔ تو قیامت کیوں ہے؟

اے کہ تُو پارس ِ آشفتہ!
شبِ ضبط کے چاند!
اے شب ِ ضبط کے چاند!
اپنی کرنوں کو اُچھال
اور مرے غار ِ فلاطون کو روشن کردے!
اے کہ تُو نغمۂ سربستہ!
مجھے مندِرِ الفت کا برہمن کردے!

سنگِ اسود کو مرے
خلدِ ملامت سے نکال!
اے! کہ تُو پارس ِ آشفتہ
مجھے چھُو! مجھے کُندن کردے!

میں کہ اِک دیدۂ مشتاق ہوں بس
ورنہ بے چہرہ و بے رنگ ہوں میں
بے نوا، بے سَروسامان و سُروساز
کہ جو
دیکھ سکتاہے فقط
دیکھتا رہتا ہے فقط

اورجہاں سوز و جہاں ساز ہے تُو
کُوئے گم گشتہ سے آتی ہوئی آواز ہے تُو
سات پردوں میں چھپا راز ہے تُو
راز ہے تُو
راز ہے دِل میں سمایا ہوا راز
خلوت ِ غم میں وہی ہونٹوں پہ آیا ہوا راز

تُو اگر میری زمیں پر بھی اُتر کر آجائے
یعنی سُوکھے ہوئے دریا میں سمندر آجائے

اے کہ تُو دیدۂ بینا! مجھے دیکھ!
تُو بھی تو دیکھ مجھے!
میں جو خوابوں میں
فقط خوابوں میں
ملتاہوں تجھے
میں تجھے یونہی ستاتا تو نہیں؟

خواب کو خواب دکھانے کی اجازت ہی نہیں
کیا کروں یوسف ِ تعبیر خبر ہے تجھ کو
خواب تو جاگتے رہتے ہیں معبرّ میرے!

آج پھر تجھ سے ملاہوں
اے رُخ ِ دختر ِ خورشید!
شب ضبط کے چاند!
اے شب ِ ضبط کے چاند!
میں نے پھر تیری تمنّا میں
سر ِ دست کیا ہے خود کو
میں نے پھر تجھ سے کہی ہے
وہی افسانوی بات
ہاں وہی ہمقدمی، عمر ِ سفر، رُوح ِ حیات
اور وہ بات کہ
اے تُو! اے غزل!
اے کہ تُو حسن ِ کرامت کے گُلاب!
اپنے ہمراہ شبِ ہجر کی تنہائی میں
شب بسر چاند ستارے بھی توہوسکتے ہیں
یہ شب و روز ہمارے بھی تو ہوسکتے

ادریس آزاد

No comments: