March 20, 2017

کوئی

سرِ طاقِ جاں نہ چراغ ھے
پسِ بامِ شب نہ سحر کوئی
عجب ایک عرصہِ درد ھے
نہ گمان ھے نہ خبر کوئی

نہیں اب تو کوئی ملال بھی
کسی واپسی کا خیال بھی
غمِ بے کسی نے مٹا دیا
میرے دل میں تھا بھی اگر کوئی۔

کٹے وقت چاھے عذاب میں
کِسی خواب میں یا سراب میں
جو نظر سے دُور نکل گیا
اُسے یاد کرتا ھے ھر کوئی

سرِ بزم جتنے چراغ تھے
وہ تمام رمز شناس تھے
تیری چشمِ خوش کے لحاظ سے
نہیں بولتا تھا مگر کوئی

تجھے کیا خبر ھے کہ رات بھر
تجھے دیکھ پانے کو اِک نظر
رھا ساتھ چاند کے منتظر
تیری کھڑکیوں سے اُدھر کوئی۔

سرِ شاخِ جاں تیرے نام کا
عجب ایک تازہ گلاب تھا
جسے آندھیوں سے خطر نہ تھا
جسے تھا خزاں کا نہ ڈر کوئی

تیری بے رُخی کے دیار میں
گھنی تیرگی کے حصار میں
جلے کس طرح سے چراغِ جاں
کرے کس طرف کو سفر کوئی؟؟

”امجد اسلام امجد“

No comments: