یہ سیلِ گریہ غبارِ عصیاں کو دھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
کوئی کہیں چھپ کے رونا چاہے تو رو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
یہاں بکھرنے کا غم، سمٹنے کی لذّتیں منکشف ہیں جس پر
وہ ایک دھاگے میں سارے موتی پرو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
جسے ہواؤں کی سرکشی نے بچا لیا دھوپ کی نظر سے
وہ ابرِ آوارہ، دامنِ دل بھگو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
یہ میں ہوں، تم ہو، وہ ایلچی ہے، غلام ہیں اور وہ راستہ ہے
اب اس کہانی کا کوئی انجام ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
ترے لیے عشق جاگتا ہے، ترے لیے حسن جاگتا ہے
سو اب تُو چاہے تو اپنی مرضی سے سو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
یہاں ارادے کو جبر پر اختیار حاصل رہا تو اتنا
کوئی کسی کا، جو ہونا چاہے، تو ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
نئی مسافت کے رتجگوں کا خمار کیسا چڑھا ہوا ہے
یہ نشّہ تم کو ڈبو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
سلیم کوثر
4 comments:
نئی مسافت کے رتجگوں کا خمار کیسا چڑھا ہوا ہے
سلیم کوثر! یہ نشّہ تم کو ڈبو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
سلیم کوثر کی کتاب "دنیا مری آرزو سے کم ہے" سے ایک غزل
Thank you for the poets name..😊
His unique style ....maza aa gaya
😊...thanks for visiting
Post a Comment