February 26, 2011

اِک تازہ حکایت ہے۔۔۔۔

اک تازہ حکایت ہے
سُن لو تو عنایت ہے
اِک شخص کودیکھا تھا
تاروں کی طرح ہم نے
اِک شخص کو چاہا تھا
اپنوں کی طرح ہم نے
اِک شخص کو سمجھا تھا
پھولوں کی طرح ہم نے
وہ شخص قیامت تھا
کیا کریں اُس کی باتیں
دِن اُس کے لیئے پیدا
اور اُس کی ہی تھیں راتیں
کم ملنا کسی سے تھا
ہم سے تھیں ملاقاتیں
رنگ اُس کا شہابی تھا
زُلفوں میں تھیں مہکاریں
آنکھیں تھیں کے جادو تھا
پلکیں تھیں کے تلواریں
دُشمن بھی اگر دیکھیں
سو جان سے دل ہاریں
کچھ تم سے وہ مِلتا تھا
باتوں میں شباہت میں
ہاں تم ہی سا لگتا تھا
شوخی میں شرارت میں
لگتا بھی تمہی سا تھا
دستورِ محبت میں
وہ شخص ہمیں اِک دِن
اپنوں کی طرح بھولا
تاروں کی طرح ڈوبا
پھولوں کی طرح ٹُوٹا
پھر ہاتھ نہ آیا وہ
ہم نے تو بہت ڈھونڈا
تم کس لیئے چونکے ہو
کب ذکر تُمہارا ہے؟؟
کب تم سے تقاضا ہے
کب تم سے شکایت ہے
اِک تازہ حکایت ہے
سُن لو تو عنایت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

February 22, 2011

کون روک سکتا ہے؟؟؟

لاکھ ضبط خواہش کے
بے شمار دعوے ہوں
اُس کو بھول جانے کے
بے پناہ ارادے ہوں
اور اس مُحبت کو
ترک کر کے جینے کا
فیصلہ سُنانے کو
کتنے لفظ سوچے ہوں
دل کو اُس کی آہٹ پر
برملا دھڑکنے سے
کون روک سکتا ہے؟؟
پھر وفا کے صحرا میں
اُس کے نرم لہجے اور
سوگوار آنکھوں کی
خشبوؤں کو چھونے سے
جستجو میں رہنے سے
ننگے پاؤں چلنے سے
کون روک سکتا ہے؟؟
آنسوؤں کی بارش میں
چاہے دل کے ہاتھوں سے
ہجر کے مُسافر کے
پاؤں تک بھی چُھو آؤ
جس کو لوٹ جانا ہو
اُس کو دور جانے سے
راستہ بدلنے سے
دور جا نکلنے سے
کون روک سکتا ہے؟؟؟

February 14, 2011

یاد آئے

یوں اکیلے میں اُسے اہلِ وفا یاد آئے
جیسے بنددے کو مُصیبت میں خدا یاد آئے
جیسے اُجڑے ہوئے پنچھی کو نشیمن اپنا
جیسے اپنوں کو بِچھڑنے پہ دعا یاد آئے
جیسے ڈھلتی ہوئی شاموں کو سویرا کوئی
جیسے پِنجرے میں پرندے کو فضا یاد آئے
جیسے بوڑھے کو خیالات میں بچپن اپنا
جیسے بچے کو شرارت میں سزا یاد آئے
جیسے اُجڑی ہوئی بستی کو زمانہ اپنا
جیسے طوفاں کو ٹہرنے پہ دیا یاد آئے
جیسے پلکوں کو جھپکتے ہی کِنارے بھیگیں
جیسے اُس روز ہوا کون جُدا یاد آئے

February 8, 2011

A SILENT MESSAGE....!!!

میرے خدا۔۔۔
یہ دھوپ اب سمیٹ لے
میرے خدا
مجھے بتا
یہ درد کی مسافتیں
یہ ساعتیں
مذید کس قدر ہیں اب
میرے خدا
کوئی تھے دن
کہ مجھ کو ڈھونڈنے' تلاشنے
نگر نگر میں دھوم تھی
میرے حصول کے لیئے
اُٹھا جنوں کا اِک طوفاں
وہ دن تھے کیا
کہ ہر دُعا کے ہاتھ میں
فقط میرا ہی نام تھا
ہر اِک نِگاہ کے پیار میں
فقط میری شبیہ تھی
وہ دِل کی دھڑکنوں میں بس
میرا ہی رنگ میرا ہی روپ
وہ روح روح میں بس
میرا جنوں رچا ہوا بسا ہُوا
وہ دن تھے کیا وہ کیا ہوئے
یہ آج کیا ہوا چلی
یہ کِن میں گِھر چُکا ہوں میں
یہ کون ہیں؟؟
مُجھے یہ جانتے نہیں
مجھے یہ مانتے نہیں
تو کس طرح کریں گے یہ
دنوں سی یہ مُحبتیں ؟؟؟
یہ سنگ زاد لوگ ہیں
میری جبیں پہ اِس قدر
جو دُکھ بھرے نِشان ہیں
یہ سب اِنہی کی دین ہیں
میرے خدا۔۔۔
یہ حال ہے
کہ اب وقار سے
انا کے ساتھ
شان سے کھڑا رہوں
محال ہے۔۔۔
میں حوصلوں کی ڈور سے
بندھا ہوا' لُٹا ہوا' تھکا ہوا
بڑھے گیا۔۔۔
قدم قدم پہ کِرچیاں
ہر ایک پل میں سِسکیاں
میں رت جگوں کو روح میں اُتارتا
سکون کو پُکارتا
بڑھے گیا۔۔۔
میں کب تلک سہوں یہ سب؟؟
میرے خدا۔۔۔
انہیں بتا۔۔
وطن بھی ہوں
میں ماں بھی ہوں
پناہ بھی ہوں' میں پیار ہوں
سکوں بھی ہوں
میرے وجود کو بُھلا کے
کب تلک جیئیں گے یہ
مجھے یوں دلدلوں میں چھوڑ کر چلے گئے تو کیا۔۔
مجھے بھی منزلیں دِکھا
مِلا مجھے وہ لوگ
جِن کے دل میں میرا پیار ہو
چراغ آنسوؤں کے جو
جلا جلا کے میرے نام
روشنی سے بھر گئے
کہاں ہیں وہ؟؟؟
میرے خدا۔۔۔
مُجھے بھی کوئی آس دے۔۔۔
مُحبتوں کی باس دے
یہ مہر و غم غُروب کر
یہ دھوپ اب سمیٹ لے
آسودگی کے خواب کو
میری مُنڈیر پر سُلا
جو خواہشوں کے دیپ ہیں بُجھے بُجھے
اِنہیں جلا۔۔۔
تھکی ہوئی سماعتوں کو
پیار کی صدا سُنا۔۔۔
میرے خدا۔۔
مُجھے بچا۔۔۔؛؛؛

February 1, 2011

کوئی اپنا نہیں ہوتا۔۔۔

بڑے معصوم جذبوں سے
وہ اپنے شوخ ہاتھوں پر
وفا کی سُرخ مہندی سے
اُسی کا نام لکھتی ہے۔۔۔
جسے وہ پیار کرتی ہے
مگر وہ نا سمجھ لڑکی
ابھی تک یہ نہیں سمجھی
کہ سپنے ٹوٹ جائیں تو
بہت برباد کرتے کرتے ہیں۔۔۔
یہ اُجلے رنگ ہاتھوں پر
کبھی ٹہرا نہیں کرتے
مُحبت تو حقیقت ہے
کوئی سپنا نہیں ہوتا
کسی کا نام لِکھنے سے
کوئی اپنا نہیں ہوتا۔۔۔؛؛؛