May 7, 2017

”کبھی یاد آؤ تو اس طرح“

”کبھی یاد آؤ تو اس طرح“

کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں

تمہیں دیکھنے کا جو شوق ھو
تو دیارِ ھجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں

کبھی یاد آؤ تو اس طرح

کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑھے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کِھل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رھگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
میرا درد پھر سے غزل بنے

کبھی گنگناؤ تو اس طرح
میرے زخم پھر سے گلاب ھوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
میری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں

کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو

نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو

یونہی خوش پھرو ، یونہی خوش رھو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں

کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں

2 comments: