اشک آنکھوں میں چھپاتے تھک جاتا ہوں
بوجھ پانی کا اٹھاتے تھک جاتا ہوں
برف ایسی کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ بجھاتے ہوۓ تھک جاتا ہوں
اچھی لگتی نہیں اس درجۂ شناسائی
ہاتھ ہاتھوں سے ملاتے تھک جاتا ہوں
غمگساری بھی عجب کار محبت ہے کہ میں
رونے والوں کو ہنساتے تھک جاتا ہوں
اتنی قبریں نہ بناؤ میرے اندر. محسن
میں چراغوں کو جلاتے ہوۓ تھک جاتا ہوں
محسن نقوی
Na Zmeen Hay Meri Qraar Gah, Na Falak Hay Manzil-e-Jazb-e-Dil....Bari Dair Say Hay Safar Mera, Teri Yaad Say Teri Yaad Tak
October 24, 2017
October 23, 2017
گُمشدہ
میں اک پل
ایک لمحہ چاہتی ہوں
بہت عرصہ ہُوا ہے
خُود سے بچھڑے
میں خُود کو ڈھونڈ کے
بُوچھوں گی خُود سے
بھلا میں کس سے اپنا آپ مانگُوں?
مشینوں نے مشینی کردیا ہے
نہ دن کو چین نہ راتوں کو نیندیں
سکائپ کی کُھلی کھڑکی
ہزاروں میل پہ بیٹھے ہوئے لوگوں کو
میرے گھر کی ڈائینگ میز پہ لا کر بٹھاتی ہے
مگر جو لوگ میرے ساتھ رہتے ہیں
میں اُن سے بات کرنے کو ترستی ہوں
ٹُوئٹر
فیس بُک
وٹس ایپ نے اتنا ستایا ہے
کہ خُود اپنے لیئے فُرصت نہیں ملتی
مُصیبت یہ کہ ہر جادُو
میرے سیل فُون میں بند ہے
بمُشکل آنکھ لگتی ہے
تو میرے فُون پہ جل بُجھ رہی چھوٹی سی اک بتی
مجھے آواز دیتی ہے
مجھے بے چین کرتی ہے
‘‘ نہ جانے کون ہے اس وقت؟
جانے کیا ہُوا ہو گا؟
کسے کیا بات کرنی ہے؟ ‘‘
اور ان لمحوں میں گہری نیند
آنکھوں سے نکل
گھڑیال کی سُویئؤں پہ خود کو ٹانگ دیتی ہے
نہ دن کو چین نہ راتوں کو نیندیں
میں اک پل ایک لمحہ چاہتی ہوں
بہت عرصہ ہُوا ہے خُود سے بچھڑے
ثمینہ تبسم
October 12, 2017
ہوتا ہے اس طرح بهی جہاں میں کبهی کبهی
بیمار ہو کے میں جو گیا ڈاکٹر کے پاس
کیوں کر بتاؤں کیسے مرے اڑ گئے حواس
حیران ہوا میں سن کے نرسوں کی ٹیم سے
ڈاکٹر خود دوائی لینے گئے ہیں اک حکیم سے
جا کے جب حکیم کو ڈهونڈا تو ہوا یہ عیاں
آئے تهے اس جگہ جو ابهی وه ڈاکٹر فلاں
ان کو بعد مشاورت کے یہ حاذق زماں
لیکر گئے ہوئے ہیں کسی ہومیوپیتھی کے ہاں
ناچار ہومیو کی طرف میرے اٹھ گئے قدم
پہنچا وہاں جو پاٹ کے گلیوں کے پیچ و خم
بولا یہ بالکا کہ مجهے آپ کی قسم
تینوں گئے ہیں پیر کے در پر کرانے دم
ہنستے ہوئے جو پہنچا میں پهر پیر جی کے گهر
تینوں کهڑے ہوئے گلی میں پکڑ کے سر
سن کر مرید خاص بڑے ڈاکٹر کا نام
بولا پکڑ کے گهٹنوں کو از راہِ احترام
تها پیر جی کو رات سے سر درد مع زکام
سو چهوڑ کر ادهورا یہاں اپنا فیض عام
وه آپ کے مطب پہ گئے ہیں ابهی ابهی
ہوتا ہے اس طرح بهی جہاں میں کبهی کبهی
کیوں کر بتاؤں کیسے مرے اڑ گئے حواس
حیران ہوا میں سن کے نرسوں کی ٹیم سے
ڈاکٹر خود دوائی لینے گئے ہیں اک حکیم سے
جا کے جب حکیم کو ڈهونڈا تو ہوا یہ عیاں
آئے تهے اس جگہ جو ابهی وه ڈاکٹر فلاں
ان کو بعد مشاورت کے یہ حاذق زماں
لیکر گئے ہوئے ہیں کسی ہومیوپیتھی کے ہاں
ناچار ہومیو کی طرف میرے اٹھ گئے قدم
پہنچا وہاں جو پاٹ کے گلیوں کے پیچ و خم
بولا یہ بالکا کہ مجهے آپ کی قسم
تینوں گئے ہیں پیر کے در پر کرانے دم
ہنستے ہوئے جو پہنچا میں پهر پیر جی کے گهر
تینوں کهڑے ہوئے گلی میں پکڑ کے سر
سن کر مرید خاص بڑے ڈاکٹر کا نام
بولا پکڑ کے گهٹنوں کو از راہِ احترام
تها پیر جی کو رات سے سر درد مع زکام
سو چهوڑ کر ادهورا یہاں اپنا فیض عام
وه آپ کے مطب پہ گئے ہیں ابهی ابهی
ہوتا ہے اس طرح بهی جہاں میں کبهی کبهی
October 11, 2017
اینویں نہ تو کریا کر۔ ۔۔
چھوٹیاں چھوٹیاں گلّاں اُتّے
اَینویں نہ تُوں لَڑیا کر
ایڈیاں سوھنیاں اَکھاں دے وِچ
ھنجو نہ تُوں بھریا کر
جیہڑے کَم نئیں تیرے چَناں
تُوں اوہ کَم نہ کریا کر
"طارق عزیذ "
اَینویں نہ تُوں لَڑیا کر
ایڈیاں سوھنیاں اَکھاں دے وِچ
ھنجو نہ تُوں بھریا کر
جیہڑے کَم نئیں تیرے چَناں
تُوں اوہ کَم نہ کریا کر
"طارق عزیذ "
October 9, 2017
October 7, 2017
اُسی کی۔ ۔۔
یہ آنکھ بھی ، یہ خواب بھی ، یہ رات اسی کی
ہر بات پہ یاد آتی ہے ہر بات اسی کی
جگنو سے چمکتے ہیں اسی یاد کے دم سے
آنکھوں میں لیے پھرتے ہیں سوغات اسی کی
ہر شعلے کے پیچھے ہے اسی آگ کی صورت
ہر بات کے پردے میں حکایات اسی کی
لفظوں میں سجاتے ہیں اسی حسن کی خوشبو
آنکھوں میں چھپاتے ہیں شکایات اسی کی
کیا کیجیئے اچھی ہمیں لگتی ہے ہمیشہ
دیوانگئ دل میں ہر بات اسی کی
جس شخص نے منظر کو نئے پھول دیئے تھے
ہیں دور خزاں پر بھی عنایات اسی کی
آتا ہے نظر مجمع احباب میں عادل
لاکھوں میں اکیلی ہے مگر ذات اسی کی
ہر بات پہ یاد آتی ہے ہر بات اسی کی
جگنو سے چمکتے ہیں اسی یاد کے دم سے
آنکھوں میں لیے پھرتے ہیں سوغات اسی کی
ہر شعلے کے پیچھے ہے اسی آگ کی صورت
ہر بات کے پردے میں حکایات اسی کی
لفظوں میں سجاتے ہیں اسی حسن کی خوشبو
آنکھوں میں چھپاتے ہیں شکایات اسی کی
کیا کیجیئے اچھی ہمیں لگتی ہے ہمیشہ
دیوانگئ دل میں ہر بات اسی کی
جس شخص نے منظر کو نئے پھول دیئے تھے
ہیں دور خزاں پر بھی عنایات اسی کی
آتا ہے نظر مجمع احباب میں عادل
لاکھوں میں اکیلی ہے مگر ذات اسی کی
October 4, 2017
اُدھیڑ دے۔ ۔۔
میں نے یہ کب کہا تھا کہ سارا ادھیڑ دے
جتنی بُنت خراب ہے، اتنا ادھیڑ دے
ان کا نصیب بس وہی صحرا کی خاک ہے
جن کو فراقِ یار کا لمحہ ادھیڑ دے
ممکن ہے اب کی بار میں آدھا دکھائی دوں
ممکن ہے تیرا ہجر یہ چہرہ ادھیڑ دے
ممکن ہے میری آنکھ پہ منظر نہ کھل سکیں
ممکن ہے کوئی خواب کا بخیہ ادھیڑ دے
ممکن ہے تیرے پاس نہ ملنے کا عذر ہو
ممکن ہے کوئی شہر کا رستہ ادھیڑ دے
انورؔ کہا تھا عشق نے چمڑی ادھیڑ دوں
میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ، اچھا ادھیڑ دے
انور مسعود
جتنی بُنت خراب ہے، اتنا ادھیڑ دے
ان کا نصیب بس وہی صحرا کی خاک ہے
جن کو فراقِ یار کا لمحہ ادھیڑ دے
ممکن ہے اب کی بار میں آدھا دکھائی دوں
ممکن ہے تیرا ہجر یہ چہرہ ادھیڑ دے
ممکن ہے میری آنکھ پہ منظر نہ کھل سکیں
ممکن ہے کوئی خواب کا بخیہ ادھیڑ دے
ممکن ہے تیرے پاس نہ ملنے کا عذر ہو
ممکن ہے کوئی شہر کا رستہ ادھیڑ دے
انورؔ کہا تھا عشق نے چمڑی ادھیڑ دوں
میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ، اچھا ادھیڑ دے
انور مسعود
October 3, 2017
قسمے۔ ۔۔
لوکاں کولوں سہہ نئیں ہوندا
ساڈے توں وی رہ نئیں ہوندا
تینوں ویکھ کے جو ہوندا اے
رب دی قسمے کہہ نئیں ہوندا
ساڈے توں وی رہ نئیں ہوندا
تینوں ویکھ کے جو ہوندا اے
رب دی قسمے کہہ نئیں ہوندا
Similarities :)
ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﭘﺮ
ﺳﺐ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺩﮬﮍﮐﺘﮯ ہیں
ﺳﺐ ﺍُﺩﺍﺱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ
ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ہے
ﺍﺷﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ
ﮐﮭﻞ ﮐﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ
ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﺸﺮﯾﺤﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ہے
ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﺷﻌﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺳﺐ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺟﻠﺘﮯ ہیں
ﺳﺐ ﺍُﺩﺍﺱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ
ﺑﮯﻣﺮﺍﺩ ہاتھوں ﭘﺮ
ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ہیں .......!!!!
ﺳﺐ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺩﮬﮍﮐﺘﮯ ہیں
ﺳﺐ ﺍُﺩﺍﺱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ
ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ہے
ﺍﺷﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ
ﮐﮭﻞ ﮐﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ
ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﺸﺮﯾﺤﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ہے
ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﺷﻌﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺳﺐ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺟﻠﺘﮯ ہیں
ﺳﺐ ﺍُﺩﺍﺱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ
ﺑﮯﻣﺮﺍﺩ ہاتھوں ﭘﺮ
ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ہیں .......!!!!
Subscribe to:
Posts (Atom)