October 23, 2017

گُمشدہ



میں اک پل
ایک لمحہ چاہتی ہوں
بہت عرصہ ہُوا ہے
خُود سے بچھڑے

میں خُود کو ڈھونڈ کے
بُوچھوں گی خُود سے
بھلا میں کس سے اپنا آپ مانگُوں?

مشینوں نے مشینی کردیا ہے
نہ دن کو چین نہ راتوں کو نیندیں
سکائپ کی کُھلی کھڑکی
ہزاروں میل پہ بیٹھے ہوئے لوگوں کو
میرے گھر کی ڈائینگ میز پہ لا کر بٹھاتی ہے
مگر جو لوگ میرے ساتھ رہتے ہیں
میں اُن سے بات کرنے کو ترستی ہوں

ٹُوئٹر
فیس بُک
وٹس ایپ نے اتنا ستایا ہے
کہ خُود اپنے لیئے فُرصت نہیں ملتی
مُصیبت یہ کہ ہر جادُو
میرے سیل فُون میں بند ہے
بمُشکل آنکھ لگتی ہے
تو میرے فُون پہ جل بُجھ رہی چھوٹی سی اک بتی
مجھے آواز دیتی ہے
مجھے بے چین کرتی ہے

 ‘‘ نہ جانے کون ہے اس وقت؟
   جانے کیا ہُوا ہو گا؟
   کسے کیا بات کرنی ہے؟ ‘‘

اور ان لمحوں میں گہری نیند
آنکھوں سے نکل
گھڑیال کی سُویئؤں پہ خود کو ٹانگ دیتی ہے

نہ دن کو چین نہ راتوں کو نیندیں
میں اک پل ایک لمحہ چاہتی ہوں
بہت عرصہ ہُوا ہے خُود سے بچھڑے

 ثمینہ تبسم

2 comments:

Unknown said...

humaray daur ki sachi aur alam-naak kahani :(

Rida said...

Sahi kaha....