آخرِ شب جو میری آنکھ میں بادل بھٹکا
کبھی برسا کبھی رویا کبھی ناشاد کیا
میں کہ انجان سی راہوں کا مسافر ٹھرا
ہر قدم تیری تمناؤں سے آباد کیا
نارسائی کی کسک دل سے لبوں تک پُہنچی
اِک نئے سُخن نے قرطاس پھر آباد کیا
ہم نے جب بھی کبھی دل کے نہاں پردے کھولے
اِک تیری یاد نے ہر یاد سے آزاد کیا
خاک پا ،چاک گریباں، تہی دامن ،تنہا
کس طرح تیری طلب نے ہمیں برباد کیا
اِک تصور جو تیرے ساتھ کا دل میں بندھا
تیری ان دیکھی سی چاہت کو بہت یاد کیا
لمبی راتیں تیری مُسکان سے روشن روشن
اپنی سوچوں میں تُجھے چاند کا ہمزاد کیا
دل کی دھڑکن میں کوئی نام ہے پِنہاں جیسے
اپنی ہر سانس کو اُسی نام سے آباد کیا