January 19, 2011

تمھیں میں کس طرح دیکھوں؟؟؟

دریچھ ہے دھنک کا اور ایک بادل کی چلمن ہے
اور اس چلمن کے پیچھے
چُھپ کے بیٹھےکُچھ ستارے ہیں
ستاروں کی نِگاہوں میں
عجب سی ایک اُلجھن ہے
وہ ہم کو دیکھتے ہیں اور پھر
آپس میں کہتے ہیں
" یہ منظر آسماں کا تھا یہاں پر کس طرح پُہنچا
زمیں زادوں کی قسمت میں یہ جنت کس طرح آئی
ستاروں کی یہ حیرانی سمجھ میں آنے والی ہے
کہ ایسا دلنشیں منظر کسی نے کم ہی دیکھا ہے
ہمارے درمیاں اِس وقت
جو چاہت کا موسم ہے
اُسے لفظوں میں لکھیں تو
کتابیں جگمگا اُٹھیں
جو سوچیں اِسکے بارے میں
تو روحیں گُنگُنا اُٹھیں
جو تم ہو میرے پہلو میں
کہ خوابِ زندگی تعبیر کی صورت میں آیا ہے؟
یہ کھلتے پھول سا چہرہ
جو اپنی مُسکراہٹ سے
جہاں میں روشنی کر دے
لہو میں تازگی بھر دے
بدن اک ڈھیر ریشم کا
جو ہاتھوں میں نہیں رُکتا
انوکھی سی کوئی خشبو
کہ آنکھیں بند ہو جائیں
سُخن کی جگمگاہٹ سے
شگوفے پھوٹتے جائیں
چُھپا کاجل بھری آنکھوں میں کوئی راز گہرا ہے
بہت نزدیک سے دیکھیں تو چیزیں پھیل جاتی ہیں
سو میرے چار سو دو جھیل سی آنکھوں کا پہرا ہے
تمھیں میں کس طرح دیکھوں؟؟؟

3 comments:

Anonymous said...

Thori mushkil si poem ha :)

Rida said...

:D....like ur comment...:):):)

Anonymous said...

:-)