June 28, 2017

ﺍﺩھوﺭﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ

ﺍﺩﮬﻮﺭﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ
ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺐ ﺧﻮﺍﺏ ﺧﺎﮐﺴﺘﺮ
ﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ کی ﺑﺴﺘﯽ ﻣﯿﮟ
ﺍﺩھوﺭﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ
ﭘﮍﮬﮯ ﮔﺎ ﮐﻮﻥ ﺗﻢ ﺳﻮﭼﻮ
ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺭﺍ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﺎﺭﺍ
ﻭﮦ ﺟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺟﯿﺘﺎ ؟
ﻟﮑﮭﺎ ﮨﺮ ﻟﻔﻆ ﻻﺯﻡ ﺗﮭﺎ
ﻟﮑﮭﻮﮞ ﮔﺎ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﮮ
ﻣﺮﮮ ﮨﺮ ﮔﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﻮ
ﻣﺮی ﮨﺮ ﺟﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﻮ
ﺟﻮ ﮨﺎﺭﺍ ﮨﻮﮞ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺗﻮ
ﺍسی ﺳﻨﮕﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﻮ
ﻣﺮﺍ ﮨﺮ ﺭﻭﭖ ﺗﯿﺮﺍ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺘﺮ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﺍ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺑﺪﺗﺮ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﺍ ﮨﻮﮞ
ﻭﺟﻮﺩِ ﯾﺎﺭ ﮐﮯ ﺟﯿﺴﮯ
ﺑﻠﻨﺪ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﮯ ﺟﯿﺴﮯ
ﮨﻤﺎﺭی ﻧﯿﻨﺪ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ
ﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﮐﮭﯿﻨﭽﯽ ﮨﮯ
ﭘﮍﺍ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ
ﺟﻮ ﮔﺬﺭﮮ ﮨﻢ ﭘﮯ ﮔﺬﺭﮮ ﮨﮯ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﺷﮏ ﺑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ
ﺩﺭﯾﺎﺀ ﻣﻮﺟﺰﻥ ﮨﻮﺗﮯ
ﺭﻭﺍﮞ ﺳﺐ ﯾﮧ ﺳﺮﺷﺘﯽ ﮨﮯ
ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻣﯿﺮی ﺑﺴﺘﯽ ﮨﮯ
ﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ
ﻋﺠﺐ ﺍﮎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﺘﯽ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺭﻭﭨﮫ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﻧﮧ ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﭘﺎﺱ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ
ﻟﮕا ﮨﮯ ﺁﺝ ﯾﻮﮞ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﺍﺗﺮتی ﺁﯾﺘﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ
ﮐﮩﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨیں ﻧﺎ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮈھوﻧﮉﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﻨﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﭼﻠﻮ ﺍﺱ ﭘﺎﺭ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﮩﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﺩھﻮﺭﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮯ ﺟﯿﺴﮯ
ﮐئیﺍﺣﺒﺎﺏ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍٌسی ﺩﺭﯾﺎﺀ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ
ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﺎﺭ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﮨﻤﯿﮟ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﯾﻮﻧﮩﯽ ﮨﻢ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﺳﮯ
ﺑﮭﻼ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﭘﮭﺮﺗﮯ
ﻣﺮﮮ ﺍﺱ ﻋﮩﺪ ﮐﯽ ﭼﻠﻤﻦ
ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﯽ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺍﺩھوﺭﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﺧﺎﮐﺴﺘﺮ
ﺍﺩھوﺭﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ

June 26, 2017

" ﺍُﺩﺍﺱ ﻋﯿﺪﯾﮟ "



ﻣﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﻮﮞ ‘ ﻣﺒﺎﺭﮎ ‘ ؟
ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻧﻮﺭِ ﻧﻈﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺟﮕﺮ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ
ﮔﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺩﮐﮫ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ
ﻓﻠﮏ ﭘﮧ ﮨﻠﭽﻞ ﻣﭽﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﺩِﯾﮟ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻧﺴﻠﯿﮟ
ﺍﺩﺍﺱ ﻋﯿﺪﯾﮟ ﻣﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ...
ﻭﮦ ﺑﭽﮯ ﻋﯿﺪﯼ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ؟
ﺗﺒﺎﮦ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﭘﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﻧﺬﺭِ ﺁﺗﺶ
ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺁﺑﺎﺀ ﺟﻞ ﺭﮨﮯﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻧﻨﮭﯽ ﺳﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﺩِﯾﮟ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻧﺴﻠﯿﮟ
ﺍﺩﺍﺱ ﻋﯿﺪﯾﮟ ﻣﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﺑﺘﺎﺅ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﺪﮦ ﺗﺤﻔﮧ
ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﻼﺵ ﺑﮭﯿﺠﻮﮞ؟
ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﻧﻌﺶ ﺑﮭﯿﺠﻮﮞ
ﯾﺎ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﻻﺵ ﺑﮭﯿﺠﻮﮞ؟
ﺟﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﻗﻮﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺗﺤﻔﮯ
ﺑﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﭘﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﺩِﯾﮟ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻧﺴﻠﯿﮟ
ﺍﺩﺍﺱ ﻋﯿﺪﯾﮟ ﻣﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﻭﮨﺎﮞ ﺳﺠﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺑﺎﻗﯽ؟
ﺟﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﺁﻧﺴﻮ ﺳﺠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﻣﮩﻨﺪﯼ ﮨﮯ ﺳﺮﺥ ﺧﻮﮞ ﮐﯽ
ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮨﺮ ﺳُﻮ ﺳﺠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺷﮩﯿﺪِ ﺣﻖ ﭘﺮ
ﺭﺩﺍﺋﮯ ﺍﺑﯿﺾ ﺳﺠﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﺩِﯾﮟ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻧﺴﻠﯿﮟ
ﺍﺩﺍﺱ ﻋﯿﺪﯾﮟ ﻣﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ....!!!

#منقول

June 23, 2017

" بھیگی خواہش "



اس کے ہاں بھی بارش ہوگی
اس نے بھی کچھ چاہا ہوگا
چائے کے رکھے ہوں گے دو کپ
ساتھ میں بھولی بسری یادیں
بیتے لمحوں کی شیرینی
پھیکی چائے میں گھول کے جب وہ
چھوٹے گھونٹ بھرتی ہوگی
میرے ساتھ کو مرتی ہو گی

June 17, 2017

غزل

درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت

ہو نہ ہو دشت و چمن میں اک تعلق ہے ضرور
باد صحرائی بھی خوشبو میں اٹھا لائی بہت

مصلحت کا جبر ایسا تھا کہ چپ رہنا پڑا
ورنہ اسلوب زمانہ پر ہنسی آئی بہت

بے سہاروں کی محبت بے نواؤں کا خلوص
آہ یہ دولت کہ انسانوں نے ٹھکرائی بہت

بے خیالی میں بھی کتنے فاصلے طے ہو گئے
بے ارادہ بھی یہ دنیا دور لے آئی بہت

اپنی فطرت میں بھی روشن ہوں گے لیکن اے ضمیرؔ
میری راتوں سے بھی تاروں نے چمک پائی بہت

June 14, 2017

آنس معین کی آخری غزل



یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور

کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی
کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور

انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر
جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور

امید سحر بھی تو وراثت میں ہے شامل
شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور

کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور

اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور
اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور

شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور

June 12, 2017

نہ دیکھ۔۔

آہ جاں سوز کی محرومی تاثیر نہ دیکھ
ہو ہی جائے گی کوئی جینے کی تدبیر نہ دیکھ
حادثے اور بھی گزرے تری الفت کے سوا
ہاں دیکھ مجھے اب مری تصویر نہ دیکھ
یہ ذرا دور پہ منزل یہ اجالا یہ سکوں
خواب کو دیکھ ابھی خواب کی تعبیر نہ دیکھ
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
کچھ بھی ہوں پھر بھی دکھے دل کی صدا ہوں ناداں
میری باتوں کو سمجھ تلخی تقریر نہ دیکھ
وہی مجروح وہی شاعر آوارہ مزاج
کون اٹھا ہے تری بزم سے دلگیر نہ دیکھ
مجروح سلطانپوری

Life goes on...

ایسا نہیں کے تیری جگہ کوئی اور آگیا
لیکن تیرا مقام بھی تیرا نہیں رہا

June 10, 2017

ایک خواہش۔۔۔

اے کاش وہ دن آئے جب میرے قلم سے
آقاؐ کے لیئے سخن قرطاس پہ اتریں

June 8, 2017

مگر تمہیں کیا۔۔۔

مگر تمہیں کیا

میں آڑھے ترچھے خیال سوچوں
کہ بے ارادہ ...........کتاب لکھوں
کوئی......... شناسا غزل تراشوں
... کہ اجنبی انتساب .............لکھوں
گنوا دوں اک عمر کے زمانے ...!
کہ ایک........ پل کا حساب لکھوں
میری طبیعت پہ منحصر...... ہے
... میں جس طرح کا ...نصاب لکھوں
یہ میرے اپنے مزاج....... پر ہے
عذاب سوچوں .....ثواب .....لکھوں

طویل تر ہے ........سفر تمہیں کیا ؟
میں جی رہا ہوں ...مگر تمہیں کیا ؟

مگر تمہیں کیا .....کہ تم تو کب سے
میرے........... ارادے گنوا چکے ہو
جلا کے سارے حروف ..........اپنے
میری ..........دعائیں بجھا چکے ہو
میں رات اوڑھوں ....کہ صبح پہنوں
تم اپنی رسمیں اٹھا ........چکے ہو
سنا ہے.....سب کچھہ بھلا چکے ہو

تو اب میرے دل پہ ...... جبر کیسا ؟
یہ دل...... تو حد سے گزر چکا ہے
گزر چکا ہے ..........مگر تمہیں کیا ؟
خزاں کا..........موسم گزر چکا ہے
ٹھہر ........... چکا ہے مگر تمہیں کیا ؟

مگر تمہیں کیا .........کہ اس خزاں میں
میں جس طرح کے ..بھی خواب لکھوں

June 3, 2017

اے مصور میرے محبوب کی تصویر بنا

اے مصور میرے محبوب کی ،،،تصویر بنا
تجھ سے بن جائے تو بگڑی ہوئی تقدیر بنا
زلف ایسی ہو کے برسات بھی پانی مانگے
سرخ ہونٹوں سے ہر اک پھول جوانی مانگے
نرگسی آنکھوں میں کاجل کے وہی تیر بنا
اے مصور میرے محبوب کی ،،،تصویر بنا
میں تجھے حسن کے انداز سکھاؤں کیسے
اپنی آنکھیں تیرے چہرے پہ لگاؤں کیسے
تیرا در چھوڑ کر،،، جاؤں تو جاؤں کیسے
جس میں الجھا رہوں دن رات وہ زنجیر بنا
اے مصور میرے محبوب کی تصویر بنا

June 1, 2017

بات سمجھ آتی ہی تب ہے

ایف ایس سی کی بالی لڑکی
شعر کہنا سیکھ رہی تھی
درد لکھنا سیکھ رہی تھی
شعر کا مطلب کیا ہوتا ہے؟
درد کی حدت کیا ہوتی ہے؟
ماہر علم عروض کے عالم
حضرت قبلہ ناقد اعظم
سوچ رہے تھے کیا بتلاؤں؟
بحروں کے اوزان میں الجھی
فعلن کی گردان میں الجھی
ایف ایس سی کی بالی لڑکی
اپنے سر سے پوچھ رہی تھی
شعر میں جدت کیا ہوتی ہے؟
سر جی یہ بتلائیں تو
پیار کی شدت کیا ہوتی ہے؟
سولہ سال کی بالی لڑکی
سترہ بحروں کے عالم کو
بھول سے ہی الجھا بیٹھی تھی
تھوڑا سوچ کے حضرت بولے
"درد کی حدت" وزن ہے اس میں
"شعر کی جدت" با معنی ہے
"پیار کی شدت" خوب کہا ہے
دیکھو بیٹا غور سے سمجھو
درد کی دال سے ح کی حد تک
حدت ہی حدت ہے اس میں
شعر کی ش سے ج اور دت تک
اس مصرعے میں جدت ہے
پ کے یار میں حرکت ہے اور
یار کی ر پھر ساکن ہے
شین کی دال پہ شد ہے جو
اس کو ت سے شدت ہے
دیکھو بیٹا غور سے سمجھو
م کو ح کی ب کو ت کی
جب ضرورت ہوتی ہے
بات سمجھ آتی ہی تب ہے
جب محبت ہوتی ہے