June 14, 2017

آنس معین کی آخری غزل



یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور

کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی
کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور

انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر
جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور

امید سحر بھی تو وراثت میں ہے شامل
شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور

کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور

اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور
اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور

شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور

No comments: