June 17, 2017

غزل

درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت

ہو نہ ہو دشت و چمن میں اک تعلق ہے ضرور
باد صحرائی بھی خوشبو میں اٹھا لائی بہت

مصلحت کا جبر ایسا تھا کہ چپ رہنا پڑا
ورنہ اسلوب زمانہ پر ہنسی آئی بہت

بے سہاروں کی محبت بے نواؤں کا خلوص
آہ یہ دولت کہ انسانوں نے ٹھکرائی بہت

بے خیالی میں بھی کتنے فاصلے طے ہو گئے
بے ارادہ بھی یہ دنیا دور لے آئی بہت

اپنی فطرت میں بھی روشن ہوں گے لیکن اے ضمیرؔ
میری راتوں سے بھی تاروں نے چمک پائی بہت

No comments: