December 26, 2017

یہ دسمبر ہے۔ ۔۔

یہ دسمبر ہے

سنو ! میں جانتی ہوں یہ دسمبر ہے
وہاں سردی بہت ہوگی
اکیلے شام کو جب تم تھکے قدموں سے لوٹو گے
تو گھر میں کوئ بھی لڑکی
سلگتی مسکراہٹ سے
تمھاری اس تھکاوٹ کو
تمھارے کوٹ پر ٹھہری ہوئ بارش کی بوندوں کو
سمیٹے گی ،نہ جھاڑے گی
نہ تم سے کوٹ لے کر وہ کسی کرسی کے ہتھے پر
اسے لٹکا کے اپنے نرم ہاتھوں سے
چھوئے گی اس طرح جیسے تمھارا لمس پاتی ہو
تم آتشدان کے آگے سمٹ کر بیٹھ جاو گے
تو ایسا بھی نہیں ہوگا
تمھارے پاس وہ آکر
بہت ہی گرم کافی کا ذرا سا گھونٹ خود لے کر
وہ کافی تم کو دے کر، تم سے یہ پوچھے
"کہو کیا تھک گئے ہو تم ؟"
تم اپنی خالی آنکھوں سے
یوں اپنے سرد کمرے کو جو دیکھو گے تو سوچو گے
ٹھٹھر کر رہ گیا سب کچھ
تمھاری انگلیوں کی سرد پوروں پر
کسی رخسار کی نرمی
کسی کے ہونٹ کی گرمی
تمھیں بے ساختہ محسوس تو ہوگی
مگر پھر سرد موسم کی ہوا کا ایک ہی جھونکا
تمھیں بے حال کردے گا
تھکے ہارے ٹھٹھرتے سرد بستر پر
اکیلے لیٹ جاو گے

سیماغزل

December 20, 2017

ایسے تو پھر ایسے ہی سہی۔۔۔

ﺍﯾﮏ ﺳﻨﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﺍﻭﺭ چار سنا ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ
ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﻮﮞ ﻣﮕﺮ خوب انا ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﻮں
‏،
ﯾﮧ ﺟﻮ ﺗﻢ ﺣﺴﻦ ﮐﯽ تلوار لیے ﭘﮭﺮﺗﯽ ﮬﻮ
ﺳﺮﺩ ﻣﮩﺮﯼ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ زنگ لگا ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ
‏،
ﺷﻌﺮ ﻟﮑﮫ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ اک اور ﺣﺴﯿﻨﮧ ﭘﮧ ﺑﮩﺖ
ﺗﺠﮫ ﭘﮧ ﻟﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ غزل ﺟﻼ ﺳﮑﺘﺎ ھوں
‏،
ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻝ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺳﺒﮭﯽ
ﺗﺠﮫ ﮐﻮ ﺭﺍﻧﯽ ﺳﮯ ﺍﺑﮭﯽ باندی بنا ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮں
‏،
ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺍﻧﺠﮭﺎ ﻧﮩﯿﮟ روتا ﭘﮭﺮﻭﮞ ﺟﻨﮕﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺗﯿﺮﮮ ﺟﺎﺗﮯ ﮬﯽ ﻧﺌﯽ ھیر ﭘﭩﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ
‏،
ﺗﻮ ﺑﺪﻝ ﺳﮑﺘﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ میں بھی ﺑﺪﻝ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺗﺠﮭﮯ ! ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﮞ منٹوں ﻣﯿﮟ ﺑﮭﻼ ﺳﮑﺘﺎ ﮬﻮﮞ

December 14, 2017

اک شخص۔ ۔۔

اُترا نہیں ہے دل سے کوشش کے  باوجود 
اک شخص میری ذات پہ بھاری ہے اس قدر

December 12, 2017

سردیوں کی بارش

سوگوار لمحوں کے 
 راگ جیسی ہوتی ہے
سردیوں کی _____ بارش تو
آگ جیسی ______ ہوتی ہے

December 7, 2017

سیکھ جاو گے

تم محبت بهی سیکھ جاؤ گے
کل سے بہتر ہے آج کی چائے

December 2, 2017

بتاؤ

اگر مَیں آدھا اَدھورا ہی لوٹ آؤں تو
نگاہِ ناز ! وہی اہتمام ھو گا نا ......؟؟
بس ایک بار محبت سے دیکھنا ھے اِدھر
بتاؤ ! تم سے یہ چھوٹا سا کام ھو گا نا ؟

November 27, 2017

تیری یادیں

آنگن میں گھنے پیڑ کے نیچے تیری یادیں
!!میلہ سا لگا دیتی ہیں ، اچھا نہیں کرتیں

November 13, 2017

آوارگی۔ ۔۔۔ (محسن نقوی)

یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی!
اِس دشت میں اِک شہر تھا، وہ کیا ہُوا آوارگی!

کل شب مجھے بے شکل کی آواز نے چونکا دیا
میں نے کہا تُو کون ہے، اُس نے کہا ’’آوارگی‘‘

لوگو بھلا اُس شہر میں کیسے جیئیں گے ہم، جہاں
ہو جرم تنہا سوچنا لیکن سزا، آوارگی!

یہ درد کی تنہائیاں، یہ دشت کا ویراں سفر
ہم لوگ تو اُکتا گئے، اپنی سُنا آوارگی!

اک اجنبی جھونکے نے جب پوچھا مرے غم کا سبب
صحرا کی بھیگی ریت پر میں نے لکھا، ’’آوارگی‘‘

اُس سمت وحشی خواہشوں کی زد میں پیمانِ وفا
اِس سَمت لہروں کی دھمک، کچّا گھڑا، آوارگی

کل رات تنہا چاند کو دیکھا تھا میں نے خواب میں
محسن مجھے راس آئے گی شاید سدا ’’آوارگی‘‘

November 4, 2017

ابھی ہم خوبصورت ہیں۔ ۔۔


کلام : احمد فراز
ابھی ہم خوبصورت ہیں
ہمارے جسم اوراقِ خزانی ہو گئے ہیں
اور ردائیں زخم سے آراستہ ہیں
پھر بھی دیکھو تو
ہماری خوشنمائی پر کوئی حرف
اور کشیدہ قامتی میں خم نہیں آیا
ہمارے ہونٹ زہریلی رُتوں سے کاسنی ہیں
اور چہرے رتجگوں کی شعلگی سے
آبنوسی ہو چکے ہیں
اور زخمی خواب
نادیدہ جزیروں کی زمیں پر
اس طرح بکھرے پڑے ہیں
جس طرح طوفاں زدہ کشتی کے ٹکڑوں کو
سمندر ساحلوں پر پھینک دیتا ہے
لہو کی بارشیں
یا خودکشی کی خواہشیں تھیں
اس اذیت کے سفر میں
کون سا موسم نہیں آیا
مگر آنکھوں میں نم
لہجے میں سم
ہونٹوں پہ کوئی نغمۂ ماتم نہیں آیا
ابھی تک دل ہمارے
خندۂ طفلاں کی صورت بے کدورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں
زمانے ہو گئے
ہم کوئے جاناں چھوڑ آئے تھے
مگر اب بھی
بہت سے آشنا نا آشنا ہمدم
اور ان کی یاد کے مانوس قاصد
اور ان کی چاہتوں کے ہجر نامے
دور دیسوں سے ہماری اور آتے ہیں
گلابی موسموں کی دُھوپ
جب نو رُستہ سبزے پر قدم رکھتی ہوئی
معمورۂ تن میں در آتی ہے
تو برفانی بدن میں
جوئے خوں آہستگی سے گنگناتی ہے
اُداسی کا پرندہ
چپ کے جنگل میں
سرِ شاخِ نہالِ غم چہکتا ہے
کوئی بھولا ہوا بِسرا ہوا دکھ
آبلہ بن کر تپکتا ہے
تو یوں لگتا ہے
جیسے حرف اپنے
زندہ آوازوں کی صورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں
ہماری خوشنمائی رفِ حق کی رونمائی ہے
اسی خاطر تو ہم آشفتہ جاں
عشّاق کی یادوں میں رہتے ہیں
کہ جہ اُن پر گزرتی ہے وہ کہتے ہیں
ہماری حرف سازی
اب بھی محبوبِ جاں ہے
شاعری شوریدگانِ عشق کے وردِ زباں ہے
اور گلابوں کی طرح شاداب چہرے
لعل و مرجاں کی طرح لب
صندلیں ہاتھوں سے
چاہت اور عقیدت کی بیاضوں پر
ہمارے نام لکھتے ہیں
سبھی درد نا آشنا
ایثار مشرب
ہم نفس اہلِ قفس
جب مقتلوں کی سمت جاتے ہیں
ہمارے بیت گاتے ہیں
ابھی تک ناز کرتے ہیں
سب اہلِ قافلہ
اپنے حدی خوانوں پر آشفتہ کلاموں پر
ابھی ہم دستخط کرتے ہیں اپنے قتل ناموں پر
ابھی ہم آسمانوں کی امانت
اور زمینوں کی ضرورت ہیں
ابھی ہم خوبصورت ہیں

October 24, 2017

تھک جاتا ہوں...

اشک آنکھوں میں چھپاتے تھک جاتا ہوں
بوجھ پانی کا اٹھاتے تھک جاتا ہوں

برف ایسی کہ پگھلتی نہیں پانی بن کر
پیاس ایسی کہ بجھاتے ہوۓ تھک جاتا ہوں

اچھی لگتی نہیں اس درجۂ شناسائی
ہاتھ ہاتھوں سے ملاتے تھک جاتا ہوں

غمگساری بھی عجب کار محبت ہے کہ میں
رونے والوں کو ہنساتے تھک  جاتا ہوں

اتنی قبریں نہ بناؤ میرے اندر. محسن
میں چراغوں کو جلاتے ہوۓ تھک جاتا ہوں

محسن نقوی

October 23, 2017

گُمشدہ



میں اک پل
ایک لمحہ چاہتی ہوں
بہت عرصہ ہُوا ہے
خُود سے بچھڑے

میں خُود کو ڈھونڈ کے
بُوچھوں گی خُود سے
بھلا میں کس سے اپنا آپ مانگُوں?

مشینوں نے مشینی کردیا ہے
نہ دن کو چین نہ راتوں کو نیندیں
سکائپ کی کُھلی کھڑکی
ہزاروں میل پہ بیٹھے ہوئے لوگوں کو
میرے گھر کی ڈائینگ میز پہ لا کر بٹھاتی ہے
مگر جو لوگ میرے ساتھ رہتے ہیں
میں اُن سے بات کرنے کو ترستی ہوں

ٹُوئٹر
فیس بُک
وٹس ایپ نے اتنا ستایا ہے
کہ خُود اپنے لیئے فُرصت نہیں ملتی
مُصیبت یہ کہ ہر جادُو
میرے سیل فُون میں بند ہے
بمُشکل آنکھ لگتی ہے
تو میرے فُون پہ جل بُجھ رہی چھوٹی سی اک بتی
مجھے آواز دیتی ہے
مجھے بے چین کرتی ہے

 ‘‘ نہ جانے کون ہے اس وقت؟
   جانے کیا ہُوا ہو گا؟
   کسے کیا بات کرنی ہے؟ ‘‘

اور ان لمحوں میں گہری نیند
آنکھوں سے نکل
گھڑیال کی سُویئؤں پہ خود کو ٹانگ دیتی ہے

نہ دن کو چین نہ راتوں کو نیندیں
میں اک پل ایک لمحہ چاہتی ہوں
بہت عرصہ ہُوا ہے خُود سے بچھڑے

 ثمینہ تبسم

October 12, 2017

ہوتا ہے اس طرح بهی جہاں میں کبهی کبهی

بیمار  ہو  کے  میں  جو  گیا  ڈاکٹر  کے  پاس
کیوں کر  بتاؤں  کیسے  مرے  اڑ  گئے حواس

حیران ہوا میں سن کے  نرسوں کی ٹیم سے
ڈاکٹر خود  دوائی  لینے گئے ہیں اک حکیم  سے

جا کے   جب   حکیم  کو  ڈهونڈا تو ہوا یہ عیاں
آئے  تهے  اس  جگہ جو  ابهی  وه  ڈاکٹر  فلاں

ان  کو   بعد  مشاورت   کے    یہ  حاذق  زماں
لیکر  گئے  ہوئے  ہیں کسی  ہومیوپیتھی  کے ہاں

ناچار ہومیو  کی  طرف  میرے  اٹھ  گئے  قدم
پہنچا وہاں  جو  پاٹ کے  گلیوں  کے  پیچ و خم

بولا  یہ   بالکا   کہ   مجهے   آپ   کی   قسم
تینوں   گئے  ہیں  پیر  کے  در پر  کرانے  دم

ہنستے ہوئے جو پہنچا میں پهر پیر جی کے گهر
تینوں کهڑے  ہوئے  گلی  میں  پکڑ  کے  سر

سن   کر   مرید   خاص   بڑے  ڈاکٹر  کا  نام
بولا  پکڑ  کے  گهٹنوں   کو   از  راہِ   احترام

تها  پیر جی  کو  رات سے  سر درد  مع زکام
سو  چهوڑ  کر  ادهورا  یہاں  اپنا   فیض   عام

وه  آپ  کے  مطب پہ  گئے  ہیں  ابهی  ابهی
ہوتا ہے اس طرح بهی جہاں میں کبهی کبهی

October 11, 2017

اینویں نہ تو کریا کر۔ ۔۔

چھوٹیاں چھوٹیاں گلّاں اُتّے
اَینویں نہ تُوں لَڑیا کر

ایڈیاں سوھنیاں اَکھاں دے وِچ
ھنجو نہ تُوں بھریا کر

جیہڑے کَم نئیں تیرے چَناں
تُوں اوہ کَم نہ کریا کر

"طارق عزیذ "

October 9, 2017

وھم...

‏دلوں سے کب نکلتے ھیں وقت جن کے ساتھ گزرا ھو

بھول جانا بھلا دینا فقط اک وھم ھوتا ھے

October 7, 2017

اُسی کی۔ ۔۔

یہ آنکھ بھی ، یہ خواب بھی ، یہ رات اسی کی
ہر بات پہ یاد آتی ہے ہر بات اسی کی

جگنو سے چمکتے ہیں اسی یاد کے دم سے
آنکھوں میں لیے پھرتے ہیں سوغات اسی کی

ہر شعلے کے پیچھے ہے اسی آگ کی صورت
ہر بات کے پردے میں حکایات اسی کی

لفظوں میں سجاتے ہیں اسی حسن کی خوشبو
آنکھوں میں چھپاتے ہیں شکایات اسی کی

کیا کیجیئے اچھی ہمیں لگتی ہے ہمیشہ
دیوانگئ دل میں ہر بات اسی کی

جس شخص نے منظر کو نئے پھول دیئے تھے
ہیں دور خزاں پر بھی عنایات اسی کی

آتا ہے نظر مجمع احباب میں عادل
لاکھوں میں اکیلی ہے مگر ذات اسی کی

October 4, 2017

اُدھیڑ دے۔ ۔۔

میں نے یہ کب کہا تھا کہ سارا ادھیڑ دے
جتنی بُنت خراب ہے، اتنا ادھیڑ دے

ان کا نصیب بس وہی صحرا کی خاک ہے
جن کو فراقِ یار کا لمحہ ادھیڑ دے

ممکن ہے اب کی بار میں آدھا دکھائی دوں
ممکن ہے تیرا ہجر یہ چہرہ ادھیڑ دے

ممکن ہے میری آنکھ پہ منظر نہ کھل سکیں
ممکن ہے کوئی خواب کا بخیہ ادھیڑ دے

ممکن ہے تیرے پاس نہ ملنے کا عذر ہو
ممکن ہے کوئی شہر کا رستہ ادھیڑ دے

انورؔ کہا تھا عشق نے چمڑی ادھیڑ دوں
میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ، اچھا ادھیڑ دے

انور مسعود

October 3, 2017

قسمے۔ ۔۔

لوکاں کولوں سہہ نئیں ہوندا
ساڈے توں وی رہ نئیں ہوندا
تینوں ویکھ کے جو ہوندا اے
رب دی قسمے کہہ نئیں ہوندا

Similarities :)

ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﭘﺮ
ﺳﺐ ﮐﮯ ﺩﻝ ﺩﮬﮍﮐﺘﮯ ہیں
ﺳﺐ ﺍُﺩﺍﺱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﯽ
ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ ہے
ﺍﺷﮏ ﺁﻧﮑﮫ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ
ﮐﮭﻞ ﮐﮯ ﻣﺴﮑﺮﺍﻧﮯ ﮐﯽ
ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﯽ ﺗﺸﺮﯾﺤﯿﮟ
ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﻭﺿﺎﺣﺖ ہے
ﺍﯾﮏ ﺟﯿﺴﮯ ﺷﻌﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺳﺐ ﮐﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺟﻠﺘﮯ ہیں
ﺳﺐ ﺍُﺩﺍﺱ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ
ﺑﮯﻣﺮﺍﺩ ہاتھوں ﭘﺮ
ﺍﯾﮏ ﺳﯽ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ہیں .......!!!!

September 28, 2017

تمہاری یاد کا موسم

کہیں جب یاد کے موسم کی آمد پر
کوئی غنچہ کِھلا دل میں
کہیں جب درد کی خوشبو سے
مہکے سب درودیوار تو دل نے
غموں کے ساز پر
 اک ان سنا سا گیت یوں گایا
کہ سارے خواب آنسو بن کر ان آنکھوں سے بہ نکلے
تو یاد آیا
کہ ہم کو ایک مدت ہو گئی ہے دل کے آنگن میں
پرانے خواب لیکر
یاد کا موسم نہیں اترا
بہت عرصے سے شبنم آنسوؤں کی
پھول سے چہرے نہیں دھوتی
بہت عرصے سے ہاتف کچھ نہیں کہتے
بس خاموش رہتے ہیں
کہاں سے ڈھونڈ لاؤں اب حسیں یادوں کے موسم کو
کہ میرے واسطے تو زیست کا پیغام یادیں تھیں
کئ بیتے ہوئے، گزرے ہوئے
پُر نور قصے یاد کرنے کے بہانے
وہ حسین یادیں
خدا کی سمت سے مجھ پر
تو اک انعام یادیں تھیں
جو غرقِ آب سیپی کی طرح سے اپنے سینے میں
بہت سے موتیوں سے راز رکھتی تھیں
وہ یادیں
جو مغنی کی صدا سے قیمتی اور دلنشین آواز رکھتی تھیں
نجانے کیا عذاب آیا
مگر اب کے
مجھ سے یاد کے موسم بچھڑ بیٹھے
مجھے تو ایک مدت ہو گئی ہے دل کے آنگن میں
پرانے خواب لیکر یاد کا موسم نہیں اترا
سیاہ راتوں میں نظریں اب فلک پر
بدلیوں میں چاند کے چھپنے کے منظر کو نہیں تکتیں
سمندر کی تہوں میں ڈوبتا سورج
بہت عرصہ ہوا بس ڈوب جاتا ہے
وہ ہم سے کچھ نہیں کہتا
تڑپتی زرد کرنوں سے بھی اب دل میں
کوئی ہلچل نہیں مچتی
غموں کے موسموں کے رنگ
اب دل کے نگر میں پھیل کر بھی
آنکھ سے آنسو بہانے میں سدا ناکام رہتے ہیں
وہ آنسو
جاتے جاتے ساتھ اپنے لے گئے تھے تم
وہ موسم۔۔۔۔۔۔۔۔۔یاد کے موسم بھی اب شاید
تمہارے پاس ہی ہونگے
میرا وجدان کہتا ہے
کہ وہ یادوں کی باتیں ساتھ اپنے لے گئے تھے تم
مگر دیکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرا سی دیر کو گر
مہربان ہوجاو تم مجھ پر
تو کچھ خوابوں کے منظر
کچھ حسین یادیں
زرا سی دیر کو بھیجو
کہ مجھ کو ایک مدت ہو گئی ہے دل کے آنگن میں
پرانے خواب لیکر یاد کا موسم نہیں اترا۔۔۔۔
منقول

September 19, 2017

وہ نہیں رہا۔ ۔۔

وہ جو خوشبوؤں کی فصیل تھی مرے چارسو، وہ نہیں رہی
مرے چارسو، وہ جو روشنی کا حصار تھا وہ نہیں رہا

وہ جو رنگ و بو کا شکار تھا، وہ جو گل رخوں پہ نثار تھا
وہ جو مبتلائے بہار تھا، دل زار تھا، وہ نہیں رہا

غم جسم و جاں ، غم دوستاں ، غم رفتگاں بھی بجا مگر
وہ جو غم کدے کا نکھار تھا، غم یار تھا، وہ نہیں رہا

وہی جلوہ گاہ جمال ہے ، وہی رسم و راہ جنوں مگر
سر عاشقاں کا جو بانکپن سردار تھا، وہ نہیں رہا

وہ کرم رہا نہ ستم رہا، نہ خوشی رہی نہ وہ غم رہا
جو عنایتوں کا، شکایتوں کا شمار تھا، وہ نہیں رہا

September 14, 2017

کاش۔ ۔۔۔

کاش ہم سمجھ لیتے
منزلوں کی چاہت میں
راستہ بدلنے سے
فاصلہ نہیں گھٹتا
دو گھڑی کی قُربت میں
چار پل کی چاہت میں
لوگ لوگ رہتے ہیں
قافلہ نہیں بنتا
ہاتھ میں دیا لے کر
ہونٹ پر دعا لے کر
منزلوں کی جانب کو
چل بھی دیں تو کیا ہو گا
خواہشوں کے جنگل میں
اتنی بھیڑ ہوتی ہے
عمر کی مُسافت میں
راستہ نہیں ملتا

September 10, 2017

Beautiful ..

ﺭﻭﺯ ﺗﺎﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻧﻤﺎﺋﺶ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﭼﺎﻧﺪ ﭘﺎﮔﻞ ﮨﮯ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﯾﮏ ﺩﯾﻮﺍﻧﮧ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮨﮯ ﻣﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻭﻗﺖ ﺑﮯ ﻭﻗﺖ ﭨﮭﮩﺮ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﭼﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﮯ ﭼﮑﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﺮﺍ ﺟﺎﮔﺘﺎ ﺧﻮﺍﺏ
ﺭﻭﺯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﮭﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺭﻭﺯ ﭘﺘﮭﺮ ﮐﯽ ﺣﻤﺎﯾﺖ ﻣﯿﮟ ﻏﺰﻝ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺭﻭﺯ ﺷﯿﺸﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﮐﺎﻡ ﻧﮑﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ ﺳﺎﻧﺴﻮ ﺫﺭﺍ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭼﻠﻮ
ﺩﮬﮍﮐﻨﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﻋﺒﺎﺩﺕ ﻣﯿﮟ ﺧﻠﻞ ﭘﮍﺗﺎ ﮨﮯ
راحت اندوری

September 5, 2017

مجھے بے خودی یہ تم نے۔۔بھلی چاشنی چکھائی۔۔

 نہ وصال ہے نہ ہجراں ،نہ سرور ہے نہ غم
 جسے کہیے خوابِ غفلت ،سو وہ نیند مجھ کو آئی

September 1, 2017

دعا

میرے کاسۂ شب و روز میں
کوئی شام ایسی بھی ڈال دے
سبھی خواھشوں کو ھرا کرے
سبھی خوف دِل سے نکال دے
__________
(امجد اسلام امجد)

August 29, 2017

کتابیں کتابوں کے اُوپر



کسی خشک لکڑی کےکیڑے نےکرمِ کتابی سے پوچھا
تمہاری نظر میں یہ سارے شجر کتنے عرصے میں سوُکھیں گے؟
کتنی بہاریں ابھی میرے رستے کو روکھے کھڑی ہیں؟
وہ رستے جہاں سے جہنم کا ساقی مجھے آملے گا؟

وہ کرمِ کتابی کتابوں میں گم تھا
اُسے فکرتھی تو فقط فکر تصدیق روح ِ مقالہ
جہانِ فسردہ کی آتش کہاں سے اُٹھائی گئی تھی؟
کتاب ِ ازل کب کھلی، کیوں کھلی تھی؟
یہ کب  ختم ہوگی؟
وہ اعداد کیسے نکلتے ہیں جن کی کوئی عقلی تاویل ہوتی نہیں ہے؟
وہ مزدور کس کو کہا جارہاہے جسے اپنے آگے نہ پیچھے
کوئی چھوڑناہے
کوئی نسل، کوئی عقیدہ، کوئی شہرتِ دائمی کا قصیدہ
کہاں پر ملے گی وہ ہیگل کی تعمیر کردہ
وہ ’’ہونے نہ ہونے‘‘کے مابین کی راہداری؟
وہ غزلیں کہاں ہیں
جو بعداز سلیمان لکھی گئی تھیں
وہ  رنگین قالین جس پر کسی کی گلابی حسیں ایڑھیوں
کے نشاں تھے

کتابوں کے کیڑے نے لکڑی کے کیڑے کے تشکیل کردہ سوالوں کو
یوں ان سنا کردیا جیسے کانوں میں رُوئی کے گالے دبے ہوں
وہ سرکوجھکائے، جھُکی ناک پر کالی عینک لگائے
غزالی پہ لکھے گئے اِک مخالف مقالے
کے مٹتے حوالوں کوتکنے پرکھنے میں مشغول ہونے کی
جھوٹی اداکاریاں کررہا تھا۔

یہ مغرور کیڑا جو اخلاق پر عزمِ سقراط سے حکمتِ کانٹ تک
کتنی آبی کتابوں کے انبار ازبر کیے سالہاسال سے
علم پر ناگ بن،  پھن کو پھیلائے بیٹھاہوا تھا
کئی ساعتوں تک نہ بولا تو لکڑی کے کیڑے نے
بوسیدہ کرسی کا پایہ اُٹھایا
تو مغرور کیڑے نے عینک کے پیچھے سے آنکھیں گھماتے ہوئے
اُس کو دیکھا
ذرا دیر رک کر تحمّل سےبولا
مجھے پچھلے سوسال سےفرصتیں ہیں
کتابیں کتابوں کے اُوپر پڑی ہیں
کتابوں کے اُوپر کتابیں، کتابوں کے اُوپر کتابیں،کتابوں کے اُوپر کتابیں پڑی ہیں
کتب خانے میرے تسلط میں آکر
مقدمات میں اور مقالوں میں ڈھلتے ہوئے
دن بدن بڑھ رہے ہیں
میں اکیس سوسال میں اتنی فصلوں کا مالک نہیں تھا
مجھے اپنی نسلوں کو اتنی کتابیں کھلانے سے فرصت ملے گی
تو لکڑی کے بارے میں بھی سوچ لونگا

ابھی کچھ بہاریں ذرا صبر کرلو!
تو پھر ہم ہمیشہ ہمیشہ کے ذہنی دباؤ سےفارغ
کسی سبز پیپل کی چھاؤں میں آرام سے بیٹھ کر
خوب تفصیل سے اُس جہنم کی باتیں کرینگے
ابھی بس تسلی کو اتنا کہونگا
کتابوں میں لکھاہے
دوزخ میں پتھرجلیں گے
وہ پتھر جو قسوہ ہیں
دنیا کے سب سے خطرناک پتھر
تو دوزخ میں لکڑی جلانے کا کوئی کہیں تذکرہ ہی نہیں ہے
یہ سن کر وہ لکڑی کیڑا
وہ پیڑوں کی لاشیں چباتاہوا مردہ خوری کامارا، خزاں زاد
 لکڑی کا کیڑا
اداسی کے گھبمیر لہجے میں بولا
تو پھر کیا شجر سارےباقی رہینگے؟
توپھرکیا پرندوں کے گھر سارے باقی رہینگے؟

توکرمِ کتابی نےسر کوہلایا
ذرا مسکرا کر بتایا
پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے
مجھے اتنے سالوں، مقالوں میں اک آخری بات معلوم ہوتی رہی ہے
وہ یہ بات ہے کہ،
’’جہنم سے پہلے کہیں کوئی جنت نہیں ہے‘‘
مجھے اتنا معلوم ہےمیرے مزدور بھائی!
کہ صدیوں کا مارا ہوا آدمی تھک چکاہے
جوبَکنا تھا اس کو وہ سب بَک چکاہے
یہ اب جی سکا تو
بشرطیکہ یہ واقعی جی سکا تو
بہاروں کوآنے، درختوں کو جھولا جھلانے سے
کوئی بھی کیڑا نہیں روک پائے گا
انسان ہے، اس کو
کوئی بھی کیڑا کبھی روک سکتا نہیں ہے۔

ادریس آزاد

August 28, 2017

سمجھ۔۔

یہ جو ہم کبھی کبھی سوچتے ہیں رات کو
رات کیا سمجھ سکے ان معاملات کو

August 25, 2017

وہ زندگی سے کیا گیا۔۔۔

وہ زندگی سے کیا گیا دھواں اڑا کے رکھ دیا
مکاں کے اک ستون نے مکاں گرا کے رکھ دیا

وہ راہ   سے   چلا  گیا   تو راہ  موڑ بن گئی
میرے سفر نے راستہ کہاں چھپا کے رکھ دیا

کسی دیئے کی طرز سے گزر رہی ہے زندگی
یہاں جلا کے رکھ دیا، وہاں بجھا کے رکھ دیا

وجود کی بساط پر بڑی عجیب مات تھی
یقین لٹا کے اٹھ گئے، گماں بچا کے رکھ دیا

عاطف توقیر

August 23, 2017

ایک شعر۔۔۔

مجھے یہ زعم کہ میں حسن کا مصور ہوں
انہیں یہ ناز کہ تصویر تو ہماری ہے۔۔۔۔

August 13, 2017

ہوکا۔۔۔۔

کل بیٹھا کجھ سوچ ریا ساں
گل اک گزرے ویلے دی
اپنے پنڈ دے پپلاں ہیٹھاں
چھوٹی عید دے میلے دی
میں جیہڑا مشہور ہاں ایناں
دل دے بھید لکاون وچ
غم دی تکھی چیک نوں گھٹ کے
اپروں ہسدا جاون وچ
اوس پرانےدن دے وچوں
کر کے یاد اک موکے نوں
زور وی لاکے روک نیئں سکیا
اپنے دل دے ہوکے نوں

(منیر نیازی)

August 9, 2017

کبھی یاد آئے تو پوچھنا۔۔۔

کبھی یاد آئے , تو پوچھنا
ذرا اپنی , خلوتِ شام سے
کسے عشق تھا , تیری ذات سے
کسے پیار تھا , تیرے نام سے
ذرا یاد کر , کہ وہ کون تھا
جو کبھی تجھے بھی , عزیز تھا
وہ جو مر مٹا , تیرے نام پہ
وہ جو جی اٹھا , تیرے نام سے
ہمیں بے رخی کا . نہیں گلہ
کہ یہی وفاؤں کا , ہے صلہ
مگر ایسا , جرم تھا کون سا
گئے ہم , دعا و سلام سے
کبھی یاد آئے , تو پوچھنا
ذرا اپنی , خلوتِ شام سے ...!!!

August 7, 2017

آج پھر۔۔۔۔

آج پھر دل نے اک تمنا کی
آج پھر دل کو ہم نے سمجھایا

August 5, 2017

محبت ایسا نغمہ ہے۔۔۔


 محبت ایسا نغمہ ہے
 ذرا بھی جھول ہے لَے میں
 تو سُر قائم نہیں رہتا

 محبت ایسا شعلہ ہے
 ہوا جیسی بھی چلتی ہو
 کبھی مدھم نہیں ہوتا

 محبت ایسا رشتہ ہے
 کہ جس میں بندھنے والوں کے
 دلوں میں غم نہیں ہوتا

 محبت ایسا پودا ہے
 جو تب بھی سبز رہتا ہے
 کہ جب موسم نہیں ہوتا

 محبت ایسا رستہ ہے
 اگر پیروں میں لرزش ہو
 تو یہ محرم نہیں ہوتا

 محبت ایسا دریا ہے
 کہ بارش روٹھ بھی جاۓ
 تو پانی کم نہیں ہوتا

August 1, 2017

سنو ناراض ہو ہم سے ؟

سنو ناراض ہو ہم سے ؟
مگر ہم وہ ہیں جن کو تو منانا بھی نہیں آتا
کسی نے آج تک ہم سے محبت جو نہیں کی ہے
محبّت کس طرح ہوتی ؟
ہمارے شہر کے اطراف میں تو
سخت پہرہ تھا خزاؤں کا
اور اس شہرِ پریشاں کی فصیلیں
زرد بیلوں سے لدی تھیں
اور اُن میں نہ کوئی خوشبو تھی، نہ کوئی پھول تم جیسا
مہک اُٹھتے ہمارے دیدہ و دل جس کی قُربت سے
ہم ایسے شہر کی سنسان گلیوں میں
کسی سُوکھے ہوئے ویران پتّے کی طرح سے تھے
کہ جب ظالم ہوا ہم پر قدم رکھتی
تو اُس کے پاؤں کے نیچے ہمارا دم نکل جاتا
مگر پت جھڑ کا وہ ویران موسم
سُنا ہےٹل چکا اب تو
مگر جو ہار ہونا تھی
سو وہ تو ہو چکی ہم کو
سُنو ۔ ۔ ۔
ہارے ہوئے لوگوں سے تو روٹھا نہیں کرتے

منقول

July 29, 2017

*مادری زبان اردو پر منتخب اشعار*☄

☄ *مادری زبان اردو پر منتخب اشعار*☄

     
ہم ہیں تہذیب کے علمبردار
ہم کو اردو زبان آتی ہے

✍محمد علی ساحل

بات کرنے کا حسیں طور طریقہ سیکھا
ہم نے اردو کے بہانے سے سلیقہ سیکھا

✍منیش شکلا

نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

✍داغؔ دہلوی

وہ کرے بات تو ہر لفظ سے خوشبو آئے
ایسی بولی وہی بولے جسے اردو آئے

✍احمد وصی

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

✍داغؔ دہلوی

وہ عطر دان سا لہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی ہوئی اردو زبان کی خوشبو

✍بشیر بدر

سلیقے سے ہواؤں میں جو خوشبو گھول سکتے ہیں
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جو اردو بول سکتے ہیں

✍نامعلوم

میرا ہر شعر ہے اک راز حقیقت بیخودؔ
میں ہوں اردو کا نظیریؔ مجھے تو کیا سمجھا

✍بیخود دہلوی

اردو جسے کہتے ہیں تہذیب کا چشمہ ہے
وہ شخص مہذب ہے جس کو یہ زباں آئی

✍روش صدیقی

اردو سے ہو کیوں بیزار انگلش سے کیوں اتنا پیار
چھوڑو بھی یہ رٹا یار ٹوئنکل ٹوئنکل لٹل اسٹار

✍انور مسعود

میری اللہ سے بس اتنی دعا ہے راشدؔ
میں جو اردو میں وصیت لکھوں بیٹا پڑھ لے

✍راشد عارفی

شہد و شکر سے شیریں اردو زباں ہماری
ہوتی ہے جس کے بولے میٹھی زباں ہماری

✍الطاف حسین حالی

وہ بولتا ہے نگاہوں سے اس قدر اردو
خموش رہ کے بھی اہل زباں سا لگتا ہے

✍نامعلوم

مرے بچوں میں ساری عادتیں.  موجود ہیں میری
تو پھر ان بد نصیبوں کو نہ کیوں اردو زباں آئی

✍منور رانا

July 19, 2017

میری تصویر۔۔۔

میری تصویر بنانے کی جو دُھن ہے تم کو
کیا اداسی کے خد و خال بنا پاؤ گے
تم پرندوں کے درختوں کے مصور ہو میاں
کس طرح سبزۂ پامال بنا پاؤ گے
سر کی دلدل میں دھنسی آنکھ بنا سکتے ہو
آنکھ میں پھیلتے پاتال بنا پاؤ گے
جو مقدر نے مری سمت اچھالا تھا کبھی
میرے ماتھے پہ وہی جال بنا پاؤ گے
مل گئی خاک میں آخر کو سیاہی جن کی
میرے ہمدم وہ میرے بال بنا پاؤ گے
یہ جو چہرے پہ خراشوں کی طرح ثبت ہوئے
یہ اذیت کے مہ و سال بنا پاؤ گے
زندگی نے جو مرا حال بنا چھوڑا ہے
میری تصویر کا وہ حال بنا پاؤ گے

July 13, 2017

دل کی بات۔۔۔

اگر تم آن لائن ہو
تو میری پوسٹ پر آو
کبھی دیکھو کہ سب غزلیں
اداسی کا اشارہ ہیں
ذرا پرکھو سبھی نظمیں
بہت خاموش رہتی ہیں
بہت بے رنگ ہیں الفاظ
میرے خواب بے رونق
بہت لائک بھی ملتے ہیں
کمنٹ بھی خوب آتے ہیں
مگر ان میں نہیں ہو تم
تو سارے رنگ پھیکے ہیں
اگر تم آن لائن ہو
تو میری پوسٹ پر آو
کوئی دو لفظ کہہ ڈالو
مری تسکین ہو جائے
جو پوری پوسٹ پھیکی ہے
ابھی رنگین ہو جائے

July 6, 2017

واہ۔۔۔۔۔

‏ہم نےتاخیرسےسیکھےہیں محبت کےاصول
ہم پہ لازم ہے----------تراعشق دوبارہ کرلیں
یہ بھی ممکن ہےتجھےدل سےبھلا دیں ہم لوگ
یہ بھی ممکن ہےتجھے------ جان سےپیاراکرلیں

July 4, 2017

تعارف

میں فرد ہوں عام سا
 اک قصہ ناتمام سا
 نہ لہجہ بے مثال ہے
 نہ بات میں کمال ہے
 ہوں دیکھنے میں عام سا
 اداسیوں کی شام سا
 جیسے ایک راز ہوں
 خود سے بے نیاز ہوں
 نہ ماہ جبینوں سے ربط ہے
 نہ شہرتوں کا ضبط ہے
رانجھا نہ قیس ہوں
 انشا،نہ فیض ہوں
 میں پیکرِ اخلاص ہوں
 وفا،دعا اور آس ہوں
 میں شخص خود شناس ہوں
 اب تم ہی کرو فیصلہ
 میں فرد ہوں عام سا؟؟
 یا پھر بہت ہی خاص ہوں؟؟

June 28, 2017

ﺍﺩھوﺭﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ

ﺍﺩﮬﻮﺭﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ
ﮨﻮﺋﮯ ﺳﺐ ﺧﻮﺍﺏ ﺧﺎﮐﺴﺘﺮ
ﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ کی ﺑﺴﺘﯽ ﻣﯿﮟ
ﺍﺩھوﺭﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ
ﭘﮍﮬﮯ ﮔﺎ ﮐﻮﻥ ﺗﻢ ﺳﻮﭼﻮ
ﻣﯿﮟ ﮨﺎﺭﺍ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﺎﺭﺍ
ﻭﮦ ﺟﯿﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﺟﯿﺘﺎ ؟
ﻟﮑﮭﺎ ﮨﺮ ﻟﻔﻆ ﻻﺯﻡ ﺗﮭﺎ
ﻟﮑﮭﻮﮞ ﮔﺎ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﺗﯿﺮﮮ
ﻣﺮﮮ ﮨﺮ ﮔﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﻮ
ﻣﺮی ﮨﺮ ﺟﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﻮ
ﺟﻮ ﮨﺎﺭﺍ ﮨﻮﮞ ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﺗﻮ
ﺍسی ﺳﻨﮕﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﮨﻮ
ﻣﺮﺍ ﮨﺮ ﺭﻭﭖ ﺗﯿﺮﺍ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﻻﺯﻡ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﮐﻤﺘﺮ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﺍ ﮨﻮﮞ
ﻣﯿﮟ ﺑﺪﺗﺮ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﺗﯿﺮﺍ ﮨﻮﮞ
ﻭﺟﻮﺩِ ﯾﺎﺭ ﮐﮯ ﺟﯿﺴﮯ
ﺑﻠﻨﺪ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﮯ ﺟﯿﺴﮯ
ﮨﻤﺎﺭی ﻧﯿﻨﺪ ﮐﯽ ﭼﺎﺩﺭ
ﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ ﻧﮯ ﮐﮭﯿﻨﭽﯽ ﮨﮯ
ﭘﮍﺍ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺱ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﮯ
ﺟﻮ ﮔﺬﺭﮮ ﮨﻢ ﭘﮯ ﮔﺬﺭﮮ ﮨﮯ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺍﺷﮏ ﺑﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ
ﺩﺭﯾﺎﺀ ﻣﻮﺟﺰﻥ ﮨﻮﺗﮯ
ﺭﻭﺍﮞ ﺳﺐ ﯾﮧ ﺳﺮﺷﺘﯽ ﮨﮯ
ﯾﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﻣﯿﺮی ﺑﺴﺘﯽ ﮨﮯ
ﮔﻨﮩﮕﺎﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ
ﻋﺠﺐ ﺍﮎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺴﺘﯽ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺭﻭﭨﮫ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﻧﮧ ﭘﮭﺮ ﯾﻮﮞ ﭘﺎﺱ ﺁﻧﮯ ﺳﮯ
ﻟﮕا ﮨﮯ ﺁﺝ ﯾﻮﮞ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﺍﺗﺮتی ﺁﯾﺘﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ
ﮐﮩﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮨیں ﻧﺎ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﮈھوﻧﮉﻧﺎ ﻭﺍﺟﺐ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﻣﻨﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﭼﻠﻮ ﺍﺱ ﭘﺎﺭ ﭼﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﮩﺎﮞ ﮐﭽﮫ ﺧﻮﺍﺏ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍﺩھﻮﺭﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﮯ ﺟﯿﺴﮯ
ﮐئیﺍﺣﺒﺎﺏ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﮭﮯ
ﺍٌسی ﺩﺭﯾﺎﺀ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ
ﮐﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﺎﺭ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﮨﻤﯿﮟ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﮯ
ﯾﻮﻧﮩﯽ ﮨﻢ ﺑﮯ ﻧﯿﺎﺯﯼ ﺳﮯ
ﺑﮭﻼ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﮭﺎﮔﺘﮯ ﭘﮭﺮﺗﮯ
ﻣﺮﮮ ﺍﺱ ﻋﮩﺪ ﮐﯽ ﭼﻠﻤﻦ
ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﯽ ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﺩﯾﮑﮭﻮ
ﺍﺩھوﺭﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﺧﺎﮐﺴﺘﺮ
ﺍﺩھوﺭﮮ ﻋﺸﻖ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ

June 26, 2017

" ﺍُﺩﺍﺱ ﻋﯿﺪﯾﮟ "



ﻣﯿﮟ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯ ﮐﮩﻮﮞ ‘ ﻣﺒﺎﺭﮎ ‘ ؟
ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﮯ ﻧﻮﺭِ ﻧﻈﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺟﮕﺮ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ
ﮔﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﺌﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﯽ ﺩﮐﮫ ﺳﮯ ﺑﮭﺮﯼ ﺩﻋﺎﺋﯿﮟ
ﻓﻠﮏ ﭘﮧ ﮨﻠﭽﻞ ﻣﭽﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﺩِﯾﮟ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻧﺴﻠﯿﮟ
ﺍﺩﺍﺱ ﻋﯿﺪﯾﮟ ﻣﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ...
ﻭﮦ ﺑﭽﮯ ﻋﯿﺪﯼ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻟﯿﮟ ﮔﮯ؟
ﺗﺒﺎﮦ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﭘﻞ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻣﺎﺋﯿﮟ ﮨﯿﮟ ﻧﺬﺭِ ﺁﺗﺶ
ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﮯ ﺁﺑﺎﺀ ﺟﻞ ﺭﮨﮯﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺟﻦ ﮐﯽ ﻧﻨﮭﯽ ﺳﯽ ﭘﯿﺎﺭﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ
ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﺩِﯾﮟ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻧﺴﻠﯿﮟ
ﺍﺩﺍﺱ ﻋﯿﺪﯾﮟ ﻣﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﺑﺘﺎﺅ ﺍُﻥ ﮐﻮ ﻣﯿﮟ ﻋﻤﺪﮦ ﺗﺤﻔﮧ
ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺗﻼﺵ ﺑﮭﯿﺠﻮﮞ؟
ﺑﮩﻦ ﮐﻮ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﻧﻌﺶ ﺑﮭﯿﺠﻮﮞ
ﯾﺎ ﻣﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﯽ ﻻﺵ ﺑﮭﯿﺠﻮﮞ؟
ﺟﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﻗﻮﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺳﮯ ﺗﺤﻔﮯ
ﺑﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﻣﯿﮟ ﭘﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﺩِﯾﮟ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻧﺴﻠﯿﮟ
ﺍﺩﺍﺱ ﻋﯿﺪﯾﮟ ﻣﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﻭﮨﺎﮞ ﺳﺠﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ ﺑﺎﻗﯽ؟
ﺟﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﺁﻧﺴﻮ ﺳﺠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﮩﺎﮞ ﮐﯽ ﻣﮩﻨﺪﯼ ﮨﮯ ﺳﺮﺥ ﺧﻮﮞ ﮐﯽ
ﺟﻨﺎﺯﮮ ﮨﺮ ﺳُﻮ ﺳﺠﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﮩﺎﮞ ﭘﮧ ﺑﮩﻨﯿﮟ ﺷﮩﯿﺪِ ﺣﻖ ﭘﺮ
ﺭﺩﺍﺋﮯ ﺍﺑﯿﺾ ﺳﺠﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﮨﯽ ﺩِﯾﮟ ﮐﯽ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﻧﺴﻠﯿﮟ
ﺍﺩﺍﺱ ﻋﯿﺪﯾﮟ ﻣﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ....!!!

#منقول

June 23, 2017

" بھیگی خواہش "



اس کے ہاں بھی بارش ہوگی
اس نے بھی کچھ چاہا ہوگا
چائے کے رکھے ہوں گے دو کپ
ساتھ میں بھولی بسری یادیں
بیتے لمحوں کی شیرینی
پھیکی چائے میں گھول کے جب وہ
چھوٹے گھونٹ بھرتی ہوگی
میرے ساتھ کو مرتی ہو گی

June 17, 2017

غزل

درد میں لذت بہت اشکوں میں رعنائی بہت
اے غم ہستی ہمیں دنیا پسند آئی بہت

ہو نہ ہو دشت و چمن میں اک تعلق ہے ضرور
باد صحرائی بھی خوشبو میں اٹھا لائی بہت

مصلحت کا جبر ایسا تھا کہ چپ رہنا پڑا
ورنہ اسلوب زمانہ پر ہنسی آئی بہت

بے سہاروں کی محبت بے نواؤں کا خلوص
آہ یہ دولت کہ انسانوں نے ٹھکرائی بہت

بے خیالی میں بھی کتنے فاصلے طے ہو گئے
بے ارادہ بھی یہ دنیا دور لے آئی بہت

اپنی فطرت میں بھی روشن ہوں گے لیکن اے ضمیرؔ
میری راتوں سے بھی تاروں نے چمک پائی بہت

June 14, 2017

آنس معین کی آخری غزل



یہ قرض تو میرا ہے چکائے گا کوئی اور
دکھ مجھ کو ہے اور نیر بہائے گا کوئی اور

کیا پھر یوں ہی دی جائے گی اجرت پہ گواہی
کیا تیری سزا اب کے بھی پائے گا کوئی اور

انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
خود میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور

تب ہوگی خبر کتنی ہے رفتار تغیر
جب شام ڈھلے لوٹ کے آئے گا کوئی اور

امید سحر بھی تو وراثت میں ہے شامل
شاید کہ دیا اب کے جلائے گا کوئی اور

کب بار تبسم مرے ہونٹوں سے اٹھے گا
یہ بوجھ بھی لگتا ہے اٹھائے گا کوئی اور

اس بار ہوں دشمن کی رسائی سے بہت دور
اس بار مگر زخم لگائے گا کوئی اور

شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ہونٹ ہلائے گا کوئی اور

June 12, 2017

نہ دیکھ۔۔

آہ جاں سوز کی محرومی تاثیر نہ دیکھ
ہو ہی جائے گی کوئی جینے کی تدبیر نہ دیکھ
حادثے اور بھی گزرے تری الفت کے سوا
ہاں دیکھ مجھے اب مری تصویر نہ دیکھ
یہ ذرا دور پہ منزل یہ اجالا یہ سکوں
خواب کو دیکھ ابھی خواب کی تعبیر نہ دیکھ
دیکھ زنداں سے پرے رنگ چمن جوش بہار
رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ
کچھ بھی ہوں پھر بھی دکھے دل کی صدا ہوں ناداں
میری باتوں کو سمجھ تلخی تقریر نہ دیکھ
وہی مجروح وہی شاعر آوارہ مزاج
کون اٹھا ہے تری بزم سے دلگیر نہ دیکھ
مجروح سلطانپوری

Life goes on...

ایسا نہیں کے تیری جگہ کوئی اور آگیا
لیکن تیرا مقام بھی تیرا نہیں رہا

June 10, 2017

ایک خواہش۔۔۔

اے کاش وہ دن آئے جب میرے قلم سے
آقاؐ کے لیئے سخن قرطاس پہ اتریں

June 8, 2017

مگر تمہیں کیا۔۔۔

مگر تمہیں کیا

میں آڑھے ترچھے خیال سوچوں
کہ بے ارادہ ...........کتاب لکھوں
کوئی......... شناسا غزل تراشوں
... کہ اجنبی انتساب .............لکھوں
گنوا دوں اک عمر کے زمانے ...!
کہ ایک........ پل کا حساب لکھوں
میری طبیعت پہ منحصر...... ہے
... میں جس طرح کا ...نصاب لکھوں
یہ میرے اپنے مزاج....... پر ہے
عذاب سوچوں .....ثواب .....لکھوں

طویل تر ہے ........سفر تمہیں کیا ؟
میں جی رہا ہوں ...مگر تمہیں کیا ؟

مگر تمہیں کیا .....کہ تم تو کب سے
میرے........... ارادے گنوا چکے ہو
جلا کے سارے حروف ..........اپنے
میری ..........دعائیں بجھا چکے ہو
میں رات اوڑھوں ....کہ صبح پہنوں
تم اپنی رسمیں اٹھا ........چکے ہو
سنا ہے.....سب کچھہ بھلا چکے ہو

تو اب میرے دل پہ ...... جبر کیسا ؟
یہ دل...... تو حد سے گزر چکا ہے
گزر چکا ہے ..........مگر تمہیں کیا ؟
خزاں کا..........موسم گزر چکا ہے
ٹھہر ........... چکا ہے مگر تمہیں کیا ؟

مگر تمہیں کیا .........کہ اس خزاں میں
میں جس طرح کے ..بھی خواب لکھوں

June 3, 2017

اے مصور میرے محبوب کی تصویر بنا

اے مصور میرے محبوب کی ،،،تصویر بنا
تجھ سے بن جائے تو بگڑی ہوئی تقدیر بنا
زلف ایسی ہو کے برسات بھی پانی مانگے
سرخ ہونٹوں سے ہر اک پھول جوانی مانگے
نرگسی آنکھوں میں کاجل کے وہی تیر بنا
اے مصور میرے محبوب کی ،،،تصویر بنا
میں تجھے حسن کے انداز سکھاؤں کیسے
اپنی آنکھیں تیرے چہرے پہ لگاؤں کیسے
تیرا در چھوڑ کر،،، جاؤں تو جاؤں کیسے
جس میں الجھا رہوں دن رات وہ زنجیر بنا
اے مصور میرے محبوب کی تصویر بنا

June 1, 2017

بات سمجھ آتی ہی تب ہے

ایف ایس سی کی بالی لڑکی
شعر کہنا سیکھ رہی تھی
درد لکھنا سیکھ رہی تھی
شعر کا مطلب کیا ہوتا ہے؟
درد کی حدت کیا ہوتی ہے؟
ماہر علم عروض کے عالم
حضرت قبلہ ناقد اعظم
سوچ رہے تھے کیا بتلاؤں؟
بحروں کے اوزان میں الجھی
فعلن کی گردان میں الجھی
ایف ایس سی کی بالی لڑکی
اپنے سر سے پوچھ رہی تھی
شعر میں جدت کیا ہوتی ہے؟
سر جی یہ بتلائیں تو
پیار کی شدت کیا ہوتی ہے؟
سولہ سال کی بالی لڑکی
سترہ بحروں کے عالم کو
بھول سے ہی الجھا بیٹھی تھی
تھوڑا سوچ کے حضرت بولے
"درد کی حدت" وزن ہے اس میں
"شعر کی جدت" با معنی ہے
"پیار کی شدت" خوب کہا ہے
دیکھو بیٹا غور سے سمجھو
درد کی دال سے ح کی حد تک
حدت ہی حدت ہے اس میں
شعر کی ش سے ج اور دت تک
اس مصرعے میں جدت ہے
پ کے یار میں حرکت ہے اور
یار کی ر پھر ساکن ہے
شین کی دال پہ شد ہے جو
اس کو ت سے شدت ہے
دیکھو بیٹا غور سے سمجھو
م کو ح کی ب کو ت کی
جب ضرورت ہوتی ہے
بات سمجھ آتی ہی تب ہے
جب محبت ہوتی ہے

May 29, 2017

مَحبت بیس پچّیس تیس برسوں میں نہیں ہوتی

مَحبت بیس پچّیس تیس برسوں میں نہیں ہوتی
یہ پَل بھر تا زَمَن کی وسعتوں کو ڈھانپ لیتی ہے
(یہ پل کا گیان ہے اور عمر بھر کامِل نہیں ہوتا)
.
کسی نایافت کی دریافت، غیبی ہاتھ کے احساں
تن و جیون، حیات و کائنات و وقت کی بخشش
منال و رزق و صحّت، درک و فہم و آگہی کی دین
نہ ہو قطمیر کا مالک جو، اس کو اک جہاں دینا
.
نعَم، احساس، ارماں، اوّل و آخر عطا جس کی
اسی کی یافت ڈھل کر شکر میں ہے بے پناہ تسلیم
لہُ ہے قلب ممنوں، ذہن ساجد، درک پُر تعظیم
.
یہ حالت بیس پچیس تیس برسوں میں نہیں ہوتی
یہ حق باطل کا یُدھ ہے عمر بھر فیصل نہیں ہوتا
.
اکیلا دل لکھوکھا خواہشوں سے کس طرح نپٹے
زباں یکبارگی ہو نوع نوع کی کس طرح ذائق
بہت مجبور ٹھہرے اختیارِ خیر و شر کے بیچ
اتر آ مستعان اب تو، مَیں نِربَل، روگ یہ سرتیچھ
.
عبادت بیس پچیس تیس برسوں میں نہیں ہوتی
یہ دل کا شکر ہے تعمیل کر کر اور بڑھتا ہے ـ ـ ـ
احمد سلمان اشرف

May 7, 2017

”کبھی یاد آؤ تو اس طرح“

”کبھی یاد آؤ تو اس طرح“

کبھی یاد آؤ تو اس طرح
کہ لہو کی ساری تمازتیں
تمہیں دھوپ دھوپ سمیٹ لیں
تمہں رنگ رنگ نکھار دیں
تمہیں حرف حرف میں سوچ لیں

تمہیں دیکھنے کا جو شوق ھو
تو دیارِ ھجر کی تیرگی کو
مژہ کی نوک سے نوچ لیں

کبھی یاد آؤ تو اس طرح

کہ دل و نظر میں اُتر سکو
کبھی حد سے حبسِ جنوں بڑھے
تو حواس بن کے بکھر سکو
کبھی کِھل سکو شبِ وصل میں
کبھی خونِ جگر میں سنور سکو
سرِ رھگزر جو ملو کبھی
نہ ٹھہر سکو نہ گزر سکو
میرا درد پھر سے غزل بنے

کبھی گنگناؤ تو اس طرح
میرے زخم پھر سے گلاب ھوں
کبھی مسکراؤ تو اس طرح
میری دھڑکنیں بھی لرز اٹھیں

کبھی چوٹ کھاؤ تو اس طرح
جو نہیں تو پھر بڑے شوق سے
سبھی رابطے سبھی ضابطے
کسی دھوپ چھاؤں میں توڑ دو

نہ شکستِ دل کا ستم سہو
نہ سنو کسی کا عذابِ جاں
نہ کسی سے اپنی خلش کہو

یونہی خوش پھرو ، یونہی خوش رھو
نہ اُجڑ سکیں ، نہ سنور سکیں
کبھی دل دُکھاؤ تو اس طرح
نہ سمٹ سکیں ، نہ بکھر سکیں

کبھی بھول جاؤ تو اس طرح
کسی طور جاں سے گزر سکیں

May 5, 2017

چنچل البیلی لڑکی

وہ چنچل البیلی لڑکی

وہ چنچل البیلی لڑکی میری نظمیں یوں پڑھتی ہے
جیسے ان نظموں کا محور
اس کی اپنی ذات نہیں ہے
یعنی اتنی سندر لڑکی اور بھی ہو سکتی ہیں
جیسے اس کو علم نہیں یہ ساری باتیں اس کی ہیں
ساری گھاتیں اس کی ہیں
ہر آہٹ ہے اس کی خوشبو سب سائے ہیں اس کے سائے
سارے محل اس کے ہیں
ہر خوشبو ہے اس کی خوشبو سب چہرے ہیں اس کے چہرے
سارے آنچل اس کے ہیں
جیسے اس کو علم نہیں ہے اس لڑکی کے سارے کام
سارے نام اسی کے ہیں
ہر کھڑکی ہے اس کی کھڑکی سارے بام اسی کے ہیں
اس لڑکی کے نام سے میں نے جو کچھ اپنے نام لکھا ہے
اس سے ہی منسوب ہوا
شاید میرا وہم ہو لیکن میں نے یہ محسوس کیا ہے
جب میں نظم سناتا ہوں وہ آنکھ چرانے لگتی ہے
مجھ سے نظریں مل جائیں تو وہ شرمانے لگتی ہے
کچھ لمحے وہ چنچل لڑکی گم سُم ہو جاتی ہے
لیکن تھوڑی دیر میں پھر سے پتھر کی ہو جاتی ہے
جیسے میری نظم کی لڑکی

امجد اسلام امجد

May 2, 2017

Breath taking

تَعلق رکھ لِیا باقی، یقیں اب توڑ آیا ہوں
کسی کا ساتھ دینا تھا، کسی کو چھوڑ آیا ہوں

تمہارے ساتھ جینے کی قَسم کھانے سے کچھ پہلے
میں کچھ وعدے، کئی قَسمیں کہیں پر توڑ آیا ہوں۔۔۔۔۔۔!

محبت کانچ کا زنداں، یونہی سنگِ گِراں کب تھی
جہاں سَر پھوڑ سکتا تھا، وہیں سَر پھوڑ آیا ہوں

پلٹ کر آ گیا لیکن یوں لگتا ہے کہ اپنا آپ
جہاں تم مجھ سے بچھڑے تھے وہیں پر چھوڑ آیا ہوں۔

اُسے جانے کی جلدی تھی، سو میں آنکھوں ہی آنکھوں میں
جہاں تک چھوڑ سکتا تھا، وہیں تک چھوڑ آیا ہوں

March 20, 2017

کوئی

سرِ طاقِ جاں نہ چراغ ھے
پسِ بامِ شب نہ سحر کوئی
عجب ایک عرصہِ درد ھے
نہ گمان ھے نہ خبر کوئی

نہیں اب تو کوئی ملال بھی
کسی واپسی کا خیال بھی
غمِ بے کسی نے مٹا دیا
میرے دل میں تھا بھی اگر کوئی۔

کٹے وقت چاھے عذاب میں
کِسی خواب میں یا سراب میں
جو نظر سے دُور نکل گیا
اُسے یاد کرتا ھے ھر کوئی

سرِ بزم جتنے چراغ تھے
وہ تمام رمز شناس تھے
تیری چشمِ خوش کے لحاظ سے
نہیں بولتا تھا مگر کوئی

تجھے کیا خبر ھے کہ رات بھر
تجھے دیکھ پانے کو اِک نظر
رھا ساتھ چاند کے منتظر
تیری کھڑکیوں سے اُدھر کوئی۔

سرِ شاخِ جاں تیرے نام کا
عجب ایک تازہ گلاب تھا
جسے آندھیوں سے خطر نہ تھا
جسے تھا خزاں کا نہ ڈر کوئی

تیری بے رُخی کے دیار میں
گھنی تیرگی کے حصار میں
جلے کس طرح سے چراغِ جاں
کرے کس طرف کو سفر کوئی؟؟

”امجد اسلام امجد“

March 6, 2017

چلے جاتے ہیں۔۔۔

میری تنہائی بڑھاتے ہیں چلے جاتے ہیں

ہنس تالاب پہ آتے ہیں چلے جاتے ہیں

اس لیے اب میں کسی کو نہیں جانے دیتا

جو مجھے چھوڑ کے جاتے ہیں چلے جاتے ہیں

میری آنکھوں سے بہا کرتی ہے ان کی خوشبو

رفتگاں خواب میں آتے ہیں چلے جاتے ہیں

شادیٔ مرگ کا ماحول بنا رہتا ہے

آپ آتے ہیں رلاتے ہیں چلے جاتے ہیں

کب تمہیں عشق پہ مجبور کیا ہے ہم نے

ہم تو بس یاد دلاتے ہیں چلے جاتے ہیں

آپ کو کون تماشائی سمجھتا ہے یہاں

آپ تو آگ لگاتے ہیں چلے جاتے ہیں

ہاتھ پتھر کو بڑھاؤں تو سگان دنیا

حیرتی بن کے دکھاتے ہیں چلے جاتے ہیں


عباس تابش

February 21, 2017

آ گئی یاد

آ گئی یاد ، شام ڈھلتے ھی
بجھ گیا دل ، چراغ جلتے ھی

کھل گئے ، شہرِ غم کے دروازے
اِک ذرا سی ھَوا کے چلتے ھی

کون تھا تُو ، کہ پھر نہ دیکھا تجھے ؟
مِٹ گیا خواب ، آنکھ ملتے ھی

خوف آتا ھے اپنے ھی گھر سے
ماہِ شبِ تاب کے نکلتے ھی

تُو بھی جیسے بدل سا جاتا ھے
عکسِ دیوار کے بدلتے ھی

”منیر نیازی“

January 1, 2017

میرے قلم سے ۔۔۔نئے سال کے لئیے دعا

ا ے میرے مالک
اے میرے مولا

میری بس اتنی سی التجا ہے
کہ آنے والے نئے دنوں میں
گزرتی تکلیف دہ رتوں کا
اداسیوں کا کدورتوں کا
دلوں میں مخفی رقابتوں کا
کوئی بھی لمحہ نہ لوٹ آئے
اے میرے مالک
میری دعا ہے
 کہ آنے والے ہر ایک پل میں 
محبتیں ہوں  رفاقتیں ہوں
دلوں میں سب  ہی کے چاہتیں ہوں
 بہار رُ ت کی ملاحتوں میں
خزاں کی تلخی نہ لوٹ آئے
اے میرے مالک
اے میرے اللہ
تیرے ہی در پر سوال لائے
تجھی سے فریاد کر رہے ہیں
کہ آنے والے ہر ایک پل میں
عروج بخشے تو اس طرح کہ
زوال و پستی  نہ لوٹ آئے 
اے میرے مالک 
اے میرے آقا 
میری دعاوں کی لاج رکھنا 
تو اپنی رحمت کی بارشوں سے
سالِ  نو پُر بہار رکھنا ۔۔۔
آمین