اے نئے سال بتا تجھ میں نیاپن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے
روشنی دن کی وہی تاروں بھری رات وہی
آج ہم کو نظر آتی ہے ہر اک بات وہی
آسمان بدلا ہے افسوس نہ بدلی ہے زمین
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں
اگلے برسوں کی طرح ہوں گے قرینے تیرے
کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
جنوری فروری اور مارچ میں پڑے گی سردی
اور اپریل مئی جون میں ہو گی گرمی
تیرا سن دہر میں کچھ کھوئے گا کچھ پائے گا
اپنی میعاد بسر کر کے چلا جائے گا
تو نیا ہے تو دکھا صبح نئی شام نئی
ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی
بےسبب دیتے ہیں کیوں لوگ مبارکبادیں
غالبا ببھول گئے وقت کی کڑوی یادیں
تیری آمد سے گھٹی عمر جہاں میں سب کی
فیض نے لکھی ہے یہ نظم نرالے ڈھب کی...
یہ اور بات کہ ہم میر ہیں نہ غالب ہیں
مگر کمال کے کچھ شعر سنانے لگے
حسین خواب کی صورت کوئی غزل کہنا
رقیب جس کو سنے اور گنگنانے لگے
مگر کمال کے کچھ شعر سنانے لگے
حسین خواب کی صورت کوئی غزل کہنا
رقیب جس کو سنے اور گنگنانے لگے